Tuesday, May 13, 2025

مشرق وسطیٰ کی نئی بساط

 

مشرق وسطیٰ کی نئی بساط ,  ہتھیاروں کے سودے، بنتے اور بگڑتے اتحاد۔


امریکہ اور سعودی عرب کے مابین 142 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ صرف ہتھیاروں کا سودا نہیں، بلکہ آنے والے دنوں میں خطے کے سیاسی تعلقات اور سفارتی اتحادوں کا ایک پیش خیمہ معلوم ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واشنگٹن، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان خلیج کو پاٹنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود کیا جا  سکے۔ 

امریکہ عرصے سے سعودی عرب اور اسرائیل کو ایک متحدہ محاذ میں دیکھنے کا خواہاں رہا ہے، لیکن دونوں ممالک کے تعلقات کبھی مکمل طور پر معمول کے مطابق نہیں رہے۔ اسلحے کا یہ معاہدہ بظاہر سعودی عرب کی عسکری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے ہے، مگر اس کے سائے میں واشنگٹن کے ایک وسیع تر منصوبے کی جھلک نظر آتی ہے۔  


واشنگٹن کی سعودی عرب کو طاقتور بنانے کے ساتھ اسرائیل کی فوجی برتری کو بھی برقرار رکھنا ایک سفارتی مجبوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایف-35 جیسے حساس جنگی طیارے اس معاہدے کا حصہ نہیں، مگر یہ سودا ریاض کے ساتھ گہری فوجی شراکت داری کی علامت ضرور ہے۔ اور امکان ہے کہ مستقبل میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس اور دفاعی تعاون مزید مضبوط ہو۔  


ایران اور اس کے پراکسی ۔

ایران نے ہمیشہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھنے کے لیے پراکسی گروپوں کا سہارا لیا ہے، مگر حالیہ حالات بتاتے ہیں کہ یہ گروہ پہلے کی طرح مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔  


- لبنان میں حزب اللہ کو شدید نقصانات کا سامنا ہے، جس نے اس کی عسکری صلاحیت کو کمزور کر دیا ہے۔  

شام میں اسد رجیم کے اختتام پر ایرانی ملیشاؤں پر مسلسل اسرائیلی حملے ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہیں۔  

یمن میں حوثی باغیوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں، اور وہ اب زیادہ تر بحیرہ احمر میں اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنا رہے ہیں، نہ کہ سعودی عرب کو۔  


ان حقائق کی روشنی میں، سعودی عرب کے لیے ایران کا خطرہ فی الحال کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔  


مغربی طاقتوں سے کٹاؤ کے باعث ایران اب چین اور روس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی راہ پر گامزن ہے۔ حالیہ دنوں میں BRICS میں اس کی شمولیت، اور بیجنگ کے ساتھ اقتصادی معاہدے، اس بات کی علامت ہیں کہ تہران خود کو ایک نئے عالمی بلاک میں ضم کر رہا ہے۔  


یہ پیش رفت خطے میں ایک نئی تقسیم کو جنم دے رہی ہے، جہاں ایک جانب امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کا اتحاد ابھر رہا ہے، تو دوسری جانب ایران، چین اور روس ایک متوازی محور کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔

 دوسری جانب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک متوازن خارجہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے، جس میں ایک طرف وہ امریکی دفاعی چھتری تلے آ رہے ہیں، اور دوسری طرف چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات مستحکم کر رہے ہیں۔  

واشنگٹن سے جدید اسلحہ حاصل کرنا  اور بیجنگ کی سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں کو  خوش آمدید کہنا۔ اور ماسکو کے ساتھ OPEC کے ذریعے تیل کی منڈی میں ہم آہنگی برقرار رکھنا۔ 

یہ حکمت عملی سعودی عرب کو دونوں طرف سے فائدہ پہنچا رہی ہے۔ تاہم، امریکہ-سعودی اسلحہ معاہدہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ریاض، امریکی دفاعی بلاک کی طرف زیادہ واضح جھکاؤ اختیار کر رہا ہے۔  

یہ معاہدہ فوری طور پر سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر نہیں لا سکتا، مگر ایک مضبوط اسٹریٹیجک تکون کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ ایک طرف ایران، چین اور روس کا اتحاد مضبوط ہو رہا ہے، اور دوسری طرف سعودی عرب کا امریکی دفاعی محور میں دوبارہ داخلہ خطے کے مستقبل کے توازن کو نئی جہت دے رہا ہے۔  


یہ ہتھیاروں کے سودے صرف عسکری طاقت بڑھانے کے لیے نہیں ہو رہے، بلکہ یہ اثر و رسوخ، سفارتی تعلقات، اور مشرق وسطیٰ میں مستقبل کے اتحادوں کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔  

ندیم فاروقی

Saturday, April 26, 2025

"مرد اور عورت کی دوستی " حقیقت یا فریب


مرد اور عورت کی دوستی , حقیقت یا فریب؟ “مرد اور عورت کبھی صرف دوست نہیں ہو سکتے” — یہ جملہ ہمیں کہیں نہ کہیں سننے کو ملتا ہے۔ شاید کسی بزرگ کی زبان سے، یا کسی فلمی کردار کے ڈائیلاگ میں، یا پھر آسکر وائلڈ اور شیکسپیئر جیسے کلاسیکی مفکرین کے اقوال میں۔ ان کا ماننا تھا کہ جب مرد اور عورت ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو ان کے درمیان لازمی طور پر کشش، محبت یا کوئی اور جذبہ جنم لیتا ہے، جو خالص دوستی کو ممکن نہیں رہنے دیتا۔ لیکن کیا یہ تصور آج بھی اتنا ہی قطعی ہے؟ یا بدلتے ہوئے سماجی، ثقافتی اور ذہنی افق نے ہمیں رشتوں کو نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع دیا ہے؟ یہ سوال صرف جذباتی یا ادبی نہیں، بلکہ فکری، سماجی اور تہذیبی پیچیدگیوں سے جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر سنجیدہ غور و فکر، مشاہدہ اور تجزیہ ناگزیر ہے۔ روایتی سماجی تناظر برصغیر، مشرق وسطیٰ اور متعدد مشرقی معاشروں میں مرد و عورت کے تعلقات پر کڑی نظریں رکھی جاتی ہیں۔ معاشرتی بیانیے میں "عزت"، "غیرت"، اور "شرافت" جیسے الفاظ ایسے استعمال ہوتے ہیں گویا مرد و عورت کے درمیان کسی بھی نوعیت کا ربط فوراً خطرے کی گھنٹی بن جاتا ہو۔ دوستی کو یا تو رومان کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے یا پھر "چھپی محبت" کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں خالص دوستی کا تصور پیدا ہونا ہی دشوار ہے۔ یہ تعصبات محض ذاتی خیالات نہیں بلکہ پورے نظام کی تشکیل میں شامل ہیں۔ اسکولوں، یونیورسٹیوں، خاندانوں اور میڈیا کے ذریعے بچوں کو شروع سے سکھایا جاتا ہے کہ مخالف صنف سے رابطے ایک "حد" سے آگے نہیں بڑھنے چاہییں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی لڑکا اور لڑکی سڑک پر ساتھ دیکھے جائیں تو سوالات خودبخود جنم لینے لگتے ہیں۔ مخلوط معاشروں کا مشاہدہ تاہم جب انسان کسی ایسے ماحول میں پہنچتا ہے جہاں مخلوط تعلیم اور آزاد معاشرت ایک معمول ہے، تو بہت کچھ بدلنے لگتا ہے۔ میری تعلیم رشیا اور یوکرائن کے ان اداروں میں ہوئی جہاں مرد و عورت اکٹھے پڑھتے، کام کرتے اور روزمرہ معاملات میں ساتھ چلتے ہیں۔ وہاں ایک مرد اور عورت کے درمیان دوستی نہ تو حیران کن سمجھی جاتی ہے اور نہ مشکوک۔ میرے ذاتی تجربے میں بہت سی خواتین ایسی رہیں جن سے دوستی کا تعلق برسوں پر محیط ہوا، لیکن اس میں نہ کوئی رومانی کشش تھی اور نہ کسی جذباتی غلط فہمی کی گنجائش۔ یہ دوستی ذہنی ہم آہنگی، باہمی احترام، اور بعض اوقات مشترکہ علمی دلچسپیوں پر مبنی تھی۔ آج بھی ان میں سے کئی دوستیاں زندہ ہیں، اور ان کا دائرہ وقت، فاصلے یا معاشرتی فاصلوں سے متاثر نہیں ہوتا۔ نفسِ انسانی، جبلّت اور نیت یہ بات ماننا ضروری ہے کہ انسان ایک جذباتی اور فطری مخلوق ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان کشش ایک قدرتی عنصر ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر تعلق کشش کی بنیاد پر ہی جنم لیتا ہے؟ کیا شعور، ارادہ، اور نیت جیسے عوامل اس فطرت پر قابو نہیں پا سکتے؟ انسان کے شعور نے اسے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ جبلّت پر قابو پا سکے، اپنی نیت کو پرکھے، اور اپنے رویوں کو اخلاقی اصولوں کے تابع رکھے۔ اگر دو افراد ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کا رشتہ اس نیت سے قائم کرتے ہیں کہ اس میں احترام، خلوص اور فکری اشتراک ہو، تو پھر یہ تعلق کسی بھی قسم کی رومانوی یا جنسی الجھن سے پاک رہ سکتا ہے۔ دوستی کے ممکنہ رنگ یہ بھی مان لینا چاہیے کہ مرد و عورت کے درمیان ہر رشتہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ دوستیوں میں ذہنی قربت زیادہ ہوتی ہے، کچھ میں وقتی کشش بھی شامل ہو سکتی ہے، کچھ محض رسمی یا پیشہ ورانہ سطح پر قائم ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک فریق دوستی کو دوستی ہی سمجھتا ہے جبکہ دوسرا اسے کچھ اور رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام دوستیوں کی بنیاد میں کوئی پوشیدہ جذبہ کام کر رہا ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر تعلق کو اس کی نوعیت کے مطابق سمجھیں۔ اور نہ ہر دوستی کو مشکوک نظروں سے دیکھیں، نہ ہر مسکراہٹ کو اشارہ سمجھیں۔ ادب، میڈیا اور فلم کا کردار ادب، فلم اور میڈیا نے بھی اس تصور کو کچھ خاص مدد نہیں دی۔ زیادہ تر کہانیوں میں مرد و عورت کی دوستی کو آخرکار محبت میں تبدیل ہوتا دکھایا گیا ہے، گویا دوستی محض ابتدائی باب ہو، اصل کہانی تو بعد میں شروع ہوتی ہے۔ یہ مسلسل بیانیہ اس تاثر کو پختہ کرتا ہے کہ دوستی کبھی "دوستی" نہیں رہ سکتی۔ یہاں ہمیں ان مثالوں کی تلاش بھی کرنی چاہیے جن میں مرد و عورت نے واقعی خالص دوستی کا مظاہرہ کیا ہو، اور وہ وقت کی آزمائشوں میں ثابت قدم رہی ہو۔ بدقسمتی سے میڈیا ایسے تعلقات کو کم جگہ دیتا ہے، اس لیے عام ذہن میں محبت کا غلبہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ جدید نسل اور بدلتا زاویہ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ نئی نسل اب ان حدود کو چیلنج کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا، مشترکہ کام کی جگہیں، آن لائن فورمز اور بین الاقوامی تعلیمی مواقع نے نوجوانوں کو ایک نئی دنیا سے متعارف کروایا ہے۔ یہاں مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ برابری، خودمختاری اور اعتماد کی بنیاد پر رشتہ قائم کرتے ہیں۔ "پلیٹونک ریلیشن شپ" یعنی ایسی دوستی جس میں محبت یا جنسی کشش شامل نہ ہو، اب ایک قابلِ فہم اور قابلِ قبول تصور بنتا جا رہا ہے۔ یہ تعلقات ہمیں سکھاتے ہیں کہ انسانوں کے درمیان قربت ہمیشہ جذباتی یا رومانوی نہیں ہوتی، بلکہ فکری، روحانی یا اخلاقی بھی ہو سکتی ہے۔ نتیجہ تو کیا مرد اور عورت کے درمیان خالص دوستی ممکن ہے؟ میرا جواب ہے: ہاں، ممکن ہے۔ لیکن اس کے لیے معاشرتی تربیت، فکری بلوغت، اور ذاتی نیت کی درستگی لازمی ہے۔ ہمیں اس سوال کو صرف ادب یا فلسفے کے اقوال سے نہیں، بلکہ زمینی حقیقت اور انسانی تجربات کی روشنی میں دیکھنا ہوگا۔ جب ہم تعلقات کو احترام، حدود اور نیت کی بنیاد پر استوار کریں گے، تبھی ہم دوستی جیسے قیمتی رشتے کو اس کے حقیقی مقام پر سمجھ سکیں گے—چاہے وہ مرد و عورت کے درمیان ہو یا کسی بھی دو انسان کے درمیان۔ ندیم احمد فاروقی

Monday, October 17, 2016

Corporal punishment at Pakistani schools and Madaris.


Today, violence against children in most states is no longer defended in law, though it remains common, as legislation in many countries confirms the "right" of parents and others to impose on them.
Pakistan signed and ratified the United Nations Convention on the Rights of the Children (UNCRC) on 12 November, 1990 and Article 4 of this article urges that “States shall undertake all appropriate legislative, administrative, and other measures for the implementation of the rights recognized in the present Convention. After 18th Constitutional Amendment it is responsibility of provincial government to ensure the legislation for protection of children.

But this practice is still continued in almost every government school and Madaris (Religious schools).Pakistan is home to 1.5m street children, 90% of whom have been abused. The most pervasive forms of violence against children include neglect, corporal punishment meted out in schools, seminaries and households; child sexual abuse, acid attacks on girls, child marriages, killing and suicide, kidnapping and trafficking and recruitment of children in armed conflict. Most children at schools across the country, both girls and boys, are beaten. "The law, as it exists now, permits parents or guardians, including teachers, to beat a child in "good intent". This prevented police from acting on complaints of physical abuse. It is also a matter of attitude. Teachers say they need to beat children to teach them, but there is a need to educate teachers and pupils about child rights.

The Pakistan Pediatric Association found last year that over 88 percent of school-going children surveyed reported suffering physical abuse. Experts believe inadequate teacher training, the lack of legislation banning corporal punishment and the perception that it must be used to teach children, are all factors behind the widespread existence of corporal punishment. F.P. report.  According to a field study conducted by Plan Pakistan in Islamabad, Chakwal and Vehari districts recently to gauge prevalence of corporal punishment among 8-18 year old students, and to assess knowledge, attitude and practices of different stakeholder related to this issue, the overall prevalence was found to be 89 percent, while in government schools, it was 91 percent and in private schools, it was 86 percent. Surprisingly, religious seminaries were less prone to this menace as the prevalence of corporal punishment was 83 percent there. It was observed that punishment is practiced during 8 to 12 years age-bracket and the most common reasons are because of the students making noise, fighting or quarreling with their class-mates.
The most common form of physical punishment handed out to children, according to 24% of the more than 300 students who were surveyed, was to be beaten on the palms of the hand with a stick or ruler. Twenty-two per cent said slaps on the face or head were most common. Other popular answers were to be forced to stand or sit in an uncomfortable position, to be struck with a stick or ruler on body parts other than the hand, and to be kicked.
Violence against children remains culturally entrenched as children in Pakistan have to cope with physical violence, sexual abuse, trafficking, recruitment in armed conflicts and acid attacks. In the absence of a national database on violence against children, the report relied on secondary sources to give the prevalence of various forms of violence against children.
According to a NGO advocating the rights of children, 35,000 high school pupils in Pakistan drop out of the education system each year due to corporal punishment. Sahil, an organization working on child abuse cases, compiles data referring it as “cruel numbers” from national and local newspapers to keep the children’s sexual and physical abuse issue alive in the domain of the child protection dialogue. The children, who survive the abuse, often experience guilt, shame, and self-blame. Corporal punishment is the main reason behind the drop out of students from schools. The teachers find it a useful technique to make the students obedient. But in fact for this reason so many children refuse to come in the school. When the teacher beat the students they became afraid of him/her and try to avoid attending the class of that teacher.
Madaris the religious schools are involved in physical and sexual abuse of children. The teachers are addicted to using sticks while teaching Quran. But the government has ignored physical violence in these madaris and serious efforts were taken against it. Use of corporal punishment in Islamic schools literally means to beat the devil’ out of children. Over 70 % of teachers in Pakistan agree with the statement that corporal punishment is useful. The government of Khyber Pukhtunkhwa province banned corporal punishment in primary schools in 1999. A year later, the governments of Balochistan and Punjab issued directives to all teachers not to use corporal punishment on children. The Sindh government also issued similar orders in 2007.
But the fact is that, despite a campaign at government level and awareness-raising efforts by NGOs, the directives remain poorly implemented.
The Pakistan Paediatric Association found last year that over 88 percent of school-going children surveyed in Karachi reported suffering physical abuse.
Experts believe inadequate teacher training, the lack of legislation banning corporal punishment and the perception that it must be used to teach children, are all factors behind the widespread existence of corporal punishment. 

Wednesday, October 14, 2015

عوام کی شکست


                                                                   
                                                     
                                                                                               
                سویت یونین کے انہدام کے بعد روس نے پہلی دفعہ کسی ملک کے اندر باقاعدہ فوجی کاروائی کا آغاز شام سے کر  دیا ہے اور  شام میں اسد حکومت   کے  خلاف باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔    اس میں  ایران اور حزب اللہ کے جنگجو بھی روس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ 

                                                     شام میں 2011 سے جاری خانہ جنگی نے پورے خطے کو عدم استحکام کی پوزیشن میں لا کھڑا کر دیا ہے،   داعش نے عراق اور شام  کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے ، جبکہ شام کے دیگر  جہادی اور اپوزیشن گروپوں نے بھی شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔    بشارالاسدنے پوری قوت ان جنگجو ں کے خلاف صرف کردی ، لیکن جنگجوں کو امریکہ اور سعودی عرب کی مکمل حمایت حاصل ہونیکی وجہ سے اسد حکومت روز بروز کمزور ہوتی گئی  اور یوں لگتا تھا کہ اسد حکومت اب چند دنوں کی مہمان رہ گئی ۔  اچانک اس لڑائی میں روس کا کودنا اور براہ راست جنگ کا حصہ بننا کچھ لوگوں کیلئے خوشی اور اطمینان کا سبب بن گیا تو کچھ ممالک کیلئے خطرے کی گھنٹی بن گئی۔                                                     

                     سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا ایک طرح سے براہ راست امریکہ کی کنٹرول میں آگئی تھی،   اور انھوں نے   اپنا نیو ورلڈ آرڈر کا ایک نظام وضع کرنے  کے لئے دنیا میں مختلف جگہوں پر فوجی مداخلت کئے اور باقاعدہ جنگیں لڑیں۔   ان جنگوں کا آغاز امریکہ نے
مشرقی یورپ سے کیا  جب سربوں کے خلاف فضائی کاروائی کی گئی۔    اس کے علاوہ صومالیہ میں بھی ان کی فوجوں کی موجودگی نظر آئی۔  
11/9 کے بعد تو گویا انھوں نے ہر اس جگہ فوجی کاروائی کی ٹھان لی جہاں سے نیو ورلڈ آرڈر کے خلاف کوئی آواز اٹھنے کا اندیشہ تھا۔   ان
کا روائیوں  میں نیٹو نے امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا۔   افغانستان میں طالبان حکومت کو ختم کرکے حامد کرزئی کی مدد سے "جمہوری نظام" قائم کیا۔  ابھی افغانستان سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کا الزام عائد کرکے صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔  اس کے بعد ان کے پرانے حریف قذافی کی باری آئی اور اس کو بھی اقتتدار سے علیٰحدہ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔                                            

                                    ان سے ذرا فارغ ہوئے تو بشارالاسد کی خبر لینے کی ٹھان لی۔   صدر اسد کے خلاف براہ راست کاروائی کا کوئی جواز نہ ملا تو اپوزیشن کو کھڑا کردیا ، اور  ان کے مقابلے میں اپوزیشن کو فوجی اور اقتصادی مدد فراہم کرنے لگے۔    اس سارے عرصے میں روس خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا  تھا ۔  کبھی کبھار ڈھکے چھپے الفاظ میں مذمت یا کسی کی حمایت کی،  لیکن کوئی بھی مداخلت نہیں کی۔   امریکہ نے جن ممالک میں فوجی کاروائیاں کی ان کی اکثریت سابق سویت یونین  کے حلیفوں کی تھی۔      آھستہ آھستہ سویت یونین کے سارے حلیف یکے بعد دیگرے ختم ہو گئے  اور امریکہ نے تقریباً  ہر جگہ اپنی  بالا دستی قائم کرلی۔    اب  اس کی نظریں سابق سویت ریاستوں پر تھی   2013  میں ان کی نظر یوکرائن پر پڑی،  اور یورپی یونین کی مدد سے یوکرائین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے یوکرائن کو یورپی یونین میں شامل ہونا تھا۔    لیکن یوکرائن کے سابق صدر وکٹر یانو کووچ نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا،  جس پر ان کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگیا۔   اس  احتجاج کے دوران یوکرائن کے لوگ  دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ۔  یوکرائن کے روسی آبادی والے حصے یوکرائن کے زون میں جانے کی مخالفت کرنے لگے، جبکہ دوسرے لوگ یورپی یونین میں  جانے کے خواہشمند تھے۔    اس کے نتیجے میں احتجاج ایک سول وار یعنی خانہ جنگی کی صورت  اختیار کر گئے۔  فروری 2014 میں سابق صدر وکٹر یانو کووچ کو اقتتدار سے علیٰحدہ کیا گیا   اور ان کی جگہ ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس کو امریکہ اور یورپی یونین کی مکمل حمایت حاصل تھی۔  نئی حکومت نے روس کے ساتھ کئے گئے تمام معاہدے منسوخ کر دئیے، جس میں گیس کی خریداری کے معاہدے اور دوسرے اقتصادی معاہدے شامل تھے۔    ان معاہدوں کی منسوخی سے روس کو لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔  سابق صدر وکٹر یا کو نووچ کا تعلق مشرقی یوکرائن سے تھا جہاں ان کے حمایتی نئی حکومت کے خلاف کھڑے ہو گئے اور روس کے ساتھ معاشی معاہدوں کی حمایت کی ۔  جلد ہی ان علاقوں پر نئی حکومت نے فوجی یلغار کی، جواب میں روس نے بھی سابق صدر کی حمایتیوں کی مدد کی  اور نتیجے میں کرائیمیا روس کے قبضے میں چلا گیا اور صدر پوتن  نے ایک صدارتی حکم نامے کی رو سے کرائیمیا کو روس میں شامل کردیا۔  اس کے علاوہ مشرقی اور جنوبی یوکرائن کے ایک بڑے حصے میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔    نیٹو نے نئی یوکرائنی حکومت کا بھر پور ساتھ دیا    اور روس کے حمایتیوں کے خلاف بھر پور فوجی مدد فراہم کی۔  اس کے علاوہ انھوں نے سفارتی محاذ پر    بھی روس کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھا۔                                                                                                                                                        

                     یہی  وہ حالات تھے جس نے روس کو امریکہ اور یورپ کے ساتھ سویت یونین والی سرد جنگ کے پوزیشن پر پہنچا دیا۔  کرائیمیا پر قبضے کے بعد امریکہ اور یورپ کے ممالک نے روس پر اقتصادی پابندیان عائد کیں،  جس کی وجہ سے روس کا  روبل قدر میں کمی کا شکار ہوگیا اور بہت سے معاشی منصوبوں کی تکمیل میں روس کو آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔   یہی وہ  وقت تھا جب روس  کو بین الاقوام میں اپنی حیثیت کو دوبارہ منوانے کا سوچنا پڑا۔   ایران کے ساتھ روس نے ان کے جوھری معاملات پر تعاون جاری رکھا تھا،  اور  ان کو اسلحہ کی ترسیل بھی جاری رکھی تھی۔   اس کے علاوہ شام بھی روسی ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار ہے۔  شام میں طرطوس کی بندرگاہ اس خطے میں واحد بندرگاہ ہے ،    جہاں روس کا تسلط ہے۔   صدر اسد کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن نے روس کو یہ احساس دلایا کہ شام میں صدر اسد کی حکومت ختم ہونے سے روس نہ صرف  اسلحے کے ایک بڑے خریدار کو کھوئے گا بلکہ طرطوس کی بندرگاہ بھی ان کے ہاتھ سے جائیگی۔   روس امریکہ کے بعد دنیا کو سب سے زیادہ اسلحہ بیچنے والا ملک ہے۔  2013 میں روس نے  15 ارب ڈالر کا اسلحہ بیچا تھا۔   جبکہ 2020  تک انھوں نے  20  ارب ڈالر تک اسلحے کو بیچنے کا پلان بنا یا ہے۔  اسلحہ کی تجارت روس کے معاشی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔    حال ہی میں روس نے پاکستان کے ساتھ بھی اسلحے کی فراہمی کے معاہدے کئے ہیں۔  آپریشن ضرب عضب  میں استعمال          ہونیوالے ہیلی کاپٹر بھی روس نے فراہم کئے ہیں۔   اس کے علاوہ چین اور ہندوستان کے ساتھ بھی روسی اسلحے کا کاروبار ہے۔                                                                                                                                    

                     شام میں جاری تنازعے کا سب سے اہم پہلو علاقے میں روسی بالادستی قائم کرنا، اور روسی اسلحے کیلئے مزید گنجائش پیدا کرنا روس کی پہلی ترجیح ہے۔   یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی شام میں روسی موجودگی کا ناپسند یدہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔   امریکہ اور سعودی عرب کو یہ شکوہ ہے کہ روس صدر اسد کے خلاف ان کے پالے ہوئے اپوزیشن کو مار رہی ہے۔                     ترکی نے بھی شام میں اپنے کچھ لوگ پال رکھے ہیں جو اسد حکومت کے خلاف   لڑ رہے ہیں جن میں النصرہ فرنٹ قابل ذکر ہے۔   ترکی نے شام کی پوزیشن کو ترکی کے اندر سہولتیں فراہم کی ہیں،     جسکی وجہ سے روسی جہاز دو سے زیادہ دفعہ ترکی کے حدود میں گھس گئے۔  جواب میں نیٹو نے اپنا اجلاس بلاکر ترکی  کی حمایت کا اعلان کردیا۔   آخری خبریں آنے تک سعودی عرب نے شام میں اسد حکومت کے خلاف جنگجوؤں کی فوجی مدد تیز کرنے کا اعلان کردیا۔سعودی نے ان جنگجوؤں کو اینٹی ٹینک میزائلوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا  ۔  روسی میڈیا اور مغربی میڈیا اپنے پروپیگنڈے کو تیز کر رہی ہیں۔   روسی حکومت کا دعوٰی ہے کہ انھوں نے داعش کے ٪41 ٹھکانوں کو تباہ کردیا ہے،   جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ روس شامی ا پوزیشن کو نشانہ بنا رہی ہے۔                                                                                                                                         


                    صدر پوتن کا لہجہ بھی امریکی حکمرانوں کی طرح محسوس ہو رہا ہے،   جو ہر وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نعرے الاپ رہا ہے۔   یہ نعرے ہم دھائیوں سے سن رہے ہیں،   لیکن نہ تو دہشت گردی ختم ہوئی اور نہ دہشت۔    ان حالات میں امن کی توقع کرنا خلاف عقل لگتا ہے۔    اور اگر معمولی سی بھی غلطی ہو گئی تو نہ صرف مشرقی وسطیٰ بلکہ پوری دنیا ایک خطرناک جنگ کی لپیٹ میں آسکتی ہے،  جو ایٹمی    جنگ بھی ہوسکتی ہے۔  شام میں جاری اس جنگ میں روس کا کھودنا سرمایہ داروں کے آپس میں ایک خطرناک جنگ ثابت ہوسکتی ہے۔    روس کو سویت یونین سے جوڑنا ایک بڑی سیاسی غلطی ہوگی۔   سویت یونین ایک سوشلسٹ ملک تھا جس کی بنیادیں ایک نظرئیے پر قائم تھی۔   سویت یونین کی جنگ سرمایہ داری نظام کے خلاف تھی،   لیکن روس بذات کود سرمایہ دار ہے اور دنیا پر سرمایہ داری نظام مسلط کرنے پر مصروف عمل ہے۔ ان حالات میں کچھ حلقوں کا خوشی سے پھولے نہ سمانا بعید از عقل ہے۔   روس،   امریکہ ،   چین ،  سعودی عرب اور یورپی یونین سب کے سب سامراج ہیں۔  سب کے اپنے مفادات ہیں،   سب اپنے اہداف کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔  اس جنگ میں اگر فتح ہوتی ہے کسی بھی فریق کی تو وہ سامراج ہی ہوگا،       جن کے مقدر میں شکست لکھی ہوئی ہےوہ شام کے غریب اور بے قصور عوام ہیں ۔  اس جنگ میں فتح سامراج کا اور شکست غریب عوام کی ہوگی۔