مشرق وسطیٰ کی نئی بساط
مشرق وسطیٰ کی نئی بساط , ہتھیاروں کے سودے، بنتے اور بگڑتے اتحاد۔
امریکہ اور سعودی عرب کے مابین 142 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ یہ صرف ہتھیاروں کا سودا نہیں، بلکہ آنے والے دنوں میں خطے کے سیاسی تعلقات اور سفارتی اتحادوں کا ایک پیش خیمہ معلوم ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واشنگٹن، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان خلیج کو پاٹنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود کیا جا سکے۔
امریکہ عرصے سے سعودی عرب اور اسرائیل کو ایک متحدہ محاذ میں دیکھنے کا خواہاں رہا ہے، لیکن دونوں ممالک کے تعلقات کبھی مکمل طور پر معمول کے مطابق نہیں رہے۔ اسلحے کا یہ معاہدہ بظاہر سعودی عرب کی عسکری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے ہے، مگر اس کے سائے میں واشنگٹن کے ایک وسیع تر منصوبے کی جھلک نظر آتی ہے۔
واشنگٹن کی سعودی عرب کو طاقتور بنانے کے ساتھ اسرائیل کی فوجی برتری کو بھی برقرار رکھنا ایک سفارتی مجبوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایف-35 جیسے حساس جنگی طیارے اس معاہدے کا حصہ نہیں، مگر یہ سودا ریاض کے ساتھ گہری فوجی شراکت داری کی علامت ضرور ہے۔ اور امکان ہے کہ مستقبل میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس اور دفاعی تعاون مزید مضبوط ہو۔
ایران اور اس کے پراکسی ۔
ایران نے ہمیشہ خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھنے کے لیے پراکسی گروپوں کا سہارا لیا ہے، مگر حالیہ حالات بتاتے ہیں کہ یہ گروہ پہلے کی طرح مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔
- لبنان میں حزب اللہ کو شدید نقصانات کا سامنا ہے، جس نے اس کی عسکری صلاحیت کو کمزور کر دیا ہے۔
شام میں اسد رجیم کے اختتام پر ایرانی ملیشاؤں پر مسلسل اسرائیلی حملے ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہیں۔
یمن میں حوثی باغیوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں، اور وہ اب زیادہ تر بحیرہ احمر میں اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنا رہے ہیں، نہ کہ سعودی عرب کو۔
ان حقائق کی روشنی میں، سعودی عرب کے لیے ایران کا خطرہ فی الحال کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔
مغربی طاقتوں سے کٹاؤ کے باعث ایران اب چین اور روس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی راہ پر گامزن ہے۔ حالیہ دنوں میں BRICS میں اس کی شمولیت، اور بیجنگ کے ساتھ اقتصادی معاہدے، اس بات کی علامت ہیں کہ تہران خود کو ایک نئے عالمی بلاک میں ضم کر رہا ہے۔
یہ پیش رفت خطے میں ایک نئی تقسیم کو جنم دے رہی ہے، جہاں ایک جانب امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کا اتحاد ابھر رہا ہے، تو دوسری جانب ایران، چین اور روس ایک متوازی محور کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔
دوسری جانب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک متوازن خارجہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے، جس میں ایک طرف وہ امریکی دفاعی چھتری تلے آ رہے ہیں، اور دوسری طرف چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات مستحکم کر رہے ہیں۔
واشنگٹن سے جدید اسلحہ حاصل کرنا اور بیجنگ کی سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں کو خوش آمدید کہنا۔ اور ماسکو کے ساتھ OPEC کے ذریعے تیل کی منڈی میں ہم آہنگی برقرار رکھنا۔
یہ حکمت عملی سعودی عرب کو دونوں طرف سے فائدہ پہنچا رہی ہے۔ تاہم، امریکہ-سعودی اسلحہ معاہدہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ریاض، امریکی دفاعی بلاک کی طرف زیادہ واضح جھکاؤ اختیار کر رہا ہے۔
یہ معاہدہ فوری طور پر سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر نہیں لا سکتا، مگر ایک مضبوط اسٹریٹیجک تکون کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ ایک طرف ایران، چین اور روس کا اتحاد مضبوط ہو رہا ہے، اور دوسری طرف سعودی عرب کا امریکی دفاعی محور میں دوبارہ داخلہ خطے کے مستقبل کے توازن کو نئی جہت دے رہا ہے۔
یہ ہتھیاروں کے سودے صرف عسکری طاقت بڑھانے کے لیے نہیں ہو رہے، بلکہ یہ اثر و رسوخ، سفارتی تعلقات، اور مشرق وسطیٰ میں مستقبل کے اتحادوں کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔
ندیم فاروقی