Wednesday, October 14, 2015

عوام کی شکست


                                                                   
                                                     
                                                                                               
                سویت یونین کے انہدام کے بعد روس نے پہلی دفعہ کسی ملک کے اندر باقاعدہ فوجی کاروائی کا آغاز شام سے کر  دیا ہے اور  شام میں اسد حکومت   کے  خلاف باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔    اس میں  ایران اور حزب اللہ کے جنگجو بھی روس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ 

                                                     شام میں 2011 سے جاری خانہ جنگی نے پورے خطے کو عدم استحکام کی پوزیشن میں لا کھڑا کر دیا ہے،   داعش نے عراق اور شام  کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے ، جبکہ شام کے دیگر  جہادی اور اپوزیشن گروپوں نے بھی شام کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔    بشارالاسدنے پوری قوت ان جنگجو ں کے خلاف صرف کردی ، لیکن جنگجوں کو امریکہ اور سعودی عرب کی مکمل حمایت حاصل ہونیکی وجہ سے اسد حکومت روز بروز کمزور ہوتی گئی  اور یوں لگتا تھا کہ اسد حکومت اب چند دنوں کی مہمان رہ گئی ۔  اچانک اس لڑائی میں روس کا کودنا اور براہ راست جنگ کا حصہ بننا کچھ لوگوں کیلئے خوشی اور اطمینان کا سبب بن گیا تو کچھ ممالک کیلئے خطرے کی گھنٹی بن گئی۔                                                     

                     سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا ایک طرح سے براہ راست امریکہ کی کنٹرول میں آگئی تھی،   اور انھوں نے   اپنا نیو ورلڈ آرڈر کا ایک نظام وضع کرنے  کے لئے دنیا میں مختلف جگہوں پر فوجی مداخلت کئے اور باقاعدہ جنگیں لڑیں۔   ان جنگوں کا آغاز امریکہ نے
مشرقی یورپ سے کیا  جب سربوں کے خلاف فضائی کاروائی کی گئی۔    اس کے علاوہ صومالیہ میں بھی ان کی فوجوں کی موجودگی نظر آئی۔  
11/9 کے بعد تو گویا انھوں نے ہر اس جگہ فوجی کاروائی کی ٹھان لی جہاں سے نیو ورلڈ آرڈر کے خلاف کوئی آواز اٹھنے کا اندیشہ تھا۔   ان
کا روائیوں  میں نیٹو نے امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا۔   افغانستان میں طالبان حکومت کو ختم کرکے حامد کرزئی کی مدد سے "جمہوری نظام" قائم کیا۔  ابھی افغانستان سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کا الزام عائد کرکے صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔  اس کے بعد ان کے پرانے حریف قذافی کی باری آئی اور اس کو بھی اقتتدار سے علیٰحدہ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔                                            

                                    ان سے ذرا فارغ ہوئے تو بشارالاسد کی خبر لینے کی ٹھان لی۔   صدر اسد کے خلاف براہ راست کاروائی کا کوئی جواز نہ ملا تو اپوزیشن کو کھڑا کردیا ، اور  ان کے مقابلے میں اپوزیشن کو فوجی اور اقتصادی مدد فراہم کرنے لگے۔    اس سارے عرصے میں روس خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا  تھا ۔  کبھی کبھار ڈھکے چھپے الفاظ میں مذمت یا کسی کی حمایت کی،  لیکن کوئی بھی مداخلت نہیں کی۔   امریکہ نے جن ممالک میں فوجی کاروائیاں کی ان کی اکثریت سابق سویت یونین  کے حلیفوں کی تھی۔      آھستہ آھستہ سویت یونین کے سارے حلیف یکے بعد دیگرے ختم ہو گئے  اور امریکہ نے تقریباً  ہر جگہ اپنی  بالا دستی قائم کرلی۔    اب  اس کی نظریں سابق سویت ریاستوں پر تھی   2013  میں ان کی نظر یوکرائن پر پڑی،  اور یورپی یونین کی مدد سے یوکرائین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے یوکرائن کو یورپی یونین میں شامل ہونا تھا۔    لیکن یوکرائن کے سابق صدر وکٹر یانو کووچ نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا،  جس پر ان کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگیا۔   اس  احتجاج کے دوران یوکرائن کے لوگ  دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ۔  یوکرائن کے روسی آبادی والے حصے یوکرائن کے زون میں جانے کی مخالفت کرنے لگے، جبکہ دوسرے لوگ یورپی یونین میں  جانے کے خواہشمند تھے۔    اس کے نتیجے میں احتجاج ایک سول وار یعنی خانہ جنگی کی صورت  اختیار کر گئے۔  فروری 2014 میں سابق صدر وکٹر یانو کووچ کو اقتتدار سے علیٰحدہ کیا گیا   اور ان کی جگہ ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس کو امریکہ اور یورپی یونین کی مکمل حمایت حاصل تھی۔  نئی حکومت نے روس کے ساتھ کئے گئے تمام معاہدے منسوخ کر دئیے، جس میں گیس کی خریداری کے معاہدے اور دوسرے اقتصادی معاہدے شامل تھے۔    ان معاہدوں کی منسوخی سے روس کو لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔  سابق صدر وکٹر یا کو نووچ کا تعلق مشرقی یوکرائن سے تھا جہاں ان کے حمایتی نئی حکومت کے خلاف کھڑے ہو گئے اور روس کے ساتھ معاشی معاہدوں کی حمایت کی ۔  جلد ہی ان علاقوں پر نئی حکومت نے فوجی یلغار کی، جواب میں روس نے بھی سابق صدر کی حمایتیوں کی مدد کی  اور نتیجے میں کرائیمیا روس کے قبضے میں چلا گیا اور صدر پوتن  نے ایک صدارتی حکم نامے کی رو سے کرائیمیا کو روس میں شامل کردیا۔  اس کے علاوہ مشرقی اور جنوبی یوکرائن کے ایک بڑے حصے میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔    نیٹو نے نئی یوکرائنی حکومت کا بھر پور ساتھ دیا    اور روس کے حمایتیوں کے خلاف بھر پور فوجی مدد فراہم کی۔  اس کے علاوہ انھوں نے سفارتی محاذ پر    بھی روس کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھا۔                                                                                                                                                        

                     یہی  وہ حالات تھے جس نے روس کو امریکہ اور یورپ کے ساتھ سویت یونین والی سرد جنگ کے پوزیشن پر پہنچا دیا۔  کرائیمیا پر قبضے کے بعد امریکہ اور یورپ کے ممالک نے روس پر اقتصادی پابندیان عائد کیں،  جس کی وجہ سے روس کا  روبل قدر میں کمی کا شکار ہوگیا اور بہت سے معاشی منصوبوں کی تکمیل میں روس کو آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔   یہی وہ  وقت تھا جب روس  کو بین الاقوام میں اپنی حیثیت کو دوبارہ منوانے کا سوچنا پڑا۔   ایران کے ساتھ روس نے ان کے جوھری معاملات پر تعاون جاری رکھا تھا،  اور  ان کو اسلحہ کی ترسیل بھی جاری رکھی تھی۔   اس کے علاوہ شام بھی روسی ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار ہے۔  شام میں طرطوس کی بندرگاہ اس خطے میں واحد بندرگاہ ہے ،    جہاں روس کا تسلط ہے۔   صدر اسد کی کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن نے روس کو یہ احساس دلایا کہ شام میں صدر اسد کی حکومت ختم ہونے سے روس نہ صرف  اسلحے کے ایک بڑے خریدار کو کھوئے گا بلکہ طرطوس کی بندرگاہ بھی ان کے ہاتھ سے جائیگی۔   روس امریکہ کے بعد دنیا کو سب سے زیادہ اسلحہ بیچنے والا ملک ہے۔  2013 میں روس نے  15 ارب ڈالر کا اسلحہ بیچا تھا۔   جبکہ 2020  تک انھوں نے  20  ارب ڈالر تک اسلحے کو بیچنے کا پلان بنا یا ہے۔  اسلحہ کی تجارت روس کے معاشی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔    حال ہی میں روس نے پاکستان کے ساتھ بھی اسلحے کی فراہمی کے معاہدے کئے ہیں۔  آپریشن ضرب عضب  میں استعمال          ہونیوالے ہیلی کاپٹر بھی روس نے فراہم کئے ہیں۔   اس کے علاوہ چین اور ہندوستان کے ساتھ بھی روسی اسلحے کا کاروبار ہے۔                                                                                                                                    

                     شام میں جاری تنازعے کا سب سے اہم پہلو علاقے میں روسی بالادستی قائم کرنا، اور روسی اسلحے کیلئے مزید گنجائش پیدا کرنا روس کی پہلی ترجیح ہے۔   یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی شام میں روسی موجودگی کا ناپسند یدہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔   امریکہ اور سعودی عرب کو یہ شکوہ ہے کہ روس صدر اسد کے خلاف ان کے پالے ہوئے اپوزیشن کو مار رہی ہے۔                     ترکی نے بھی شام میں اپنے کچھ لوگ پال رکھے ہیں جو اسد حکومت کے خلاف   لڑ رہے ہیں جن میں النصرہ فرنٹ قابل ذکر ہے۔   ترکی نے شام کی پوزیشن کو ترکی کے اندر سہولتیں فراہم کی ہیں،     جسکی وجہ سے روسی جہاز دو سے زیادہ دفعہ ترکی کے حدود میں گھس گئے۔  جواب میں نیٹو نے اپنا اجلاس بلاکر ترکی  کی حمایت کا اعلان کردیا۔   آخری خبریں آنے تک سعودی عرب نے شام میں اسد حکومت کے خلاف جنگجوؤں کی فوجی مدد تیز کرنے کا اعلان کردیا۔سعودی نے ان جنگجوؤں کو اینٹی ٹینک میزائلوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا  ۔  روسی میڈیا اور مغربی میڈیا اپنے پروپیگنڈے کو تیز کر رہی ہیں۔   روسی حکومت کا دعوٰی ہے کہ انھوں نے داعش کے ٪41 ٹھکانوں کو تباہ کردیا ہے،   جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ روس شامی ا پوزیشن کو نشانہ بنا رہی ہے۔                                                                                                                                         


                    صدر پوتن کا لہجہ بھی امریکی حکمرانوں کی طرح محسوس ہو رہا ہے،   جو ہر وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نعرے الاپ رہا ہے۔   یہ نعرے ہم دھائیوں سے سن رہے ہیں،   لیکن نہ تو دہشت گردی ختم ہوئی اور نہ دہشت۔    ان حالات میں امن کی توقع کرنا خلاف عقل لگتا ہے۔    اور اگر معمولی سی بھی غلطی ہو گئی تو نہ صرف مشرقی وسطیٰ بلکہ پوری دنیا ایک خطرناک جنگ کی لپیٹ میں آسکتی ہے،  جو ایٹمی    جنگ بھی ہوسکتی ہے۔  شام میں جاری اس جنگ میں روس کا کھودنا سرمایہ داروں کے آپس میں ایک خطرناک جنگ ثابت ہوسکتی ہے۔    روس کو سویت یونین سے جوڑنا ایک بڑی سیاسی غلطی ہوگی۔   سویت یونین ایک سوشلسٹ ملک تھا جس کی بنیادیں ایک نظرئیے پر قائم تھی۔   سویت یونین کی جنگ سرمایہ داری نظام کے خلاف تھی،   لیکن روس بذات کود سرمایہ دار ہے اور دنیا پر سرمایہ داری نظام مسلط کرنے پر مصروف عمل ہے۔ ان حالات میں کچھ حلقوں کا خوشی سے پھولے نہ سمانا بعید از عقل ہے۔   روس،   امریکہ ،   چین ،  سعودی عرب اور یورپی یونین سب کے سب سامراج ہیں۔  سب کے اپنے مفادات ہیں،   سب اپنے اہداف کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔  اس جنگ میں اگر فتح ہوتی ہے کسی بھی فریق کی تو وہ سامراج ہی ہوگا،       جن کے مقدر میں شکست لکھی ہوئی ہےوہ شام کے غریب اور بے قصور عوام ہیں ۔  اس جنگ میں فتح سامراج کا اور شکست غریب عوام کی ہوگی۔                                                                                                                                       

1 Comments:

At October 11, 2016 at 12:41 PM , Blogger sardar ali khan said...

USA has determined to destroy this earth planet ...they are stupid

 

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home