Saturday, April 26, 2025

"مرد اور عورت کی دوستی " حقیقت یا فریب


مرد اور عورت کی دوستی , حقیقت یا فریب؟ “مرد اور عورت کبھی صرف دوست نہیں ہو سکتے” — یہ جملہ ہمیں کہیں نہ کہیں سننے کو ملتا ہے۔ شاید کسی بزرگ کی زبان سے، یا کسی فلمی کردار کے ڈائیلاگ میں، یا پھر آسکر وائلڈ اور شیکسپیئر جیسے کلاسیکی مفکرین کے اقوال میں۔ ان کا ماننا تھا کہ جب مرد اور عورت ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو ان کے درمیان لازمی طور پر کشش، محبت یا کوئی اور جذبہ جنم لیتا ہے، جو خالص دوستی کو ممکن نہیں رہنے دیتا۔ لیکن کیا یہ تصور آج بھی اتنا ہی قطعی ہے؟ یا بدلتے ہوئے سماجی، ثقافتی اور ذہنی افق نے ہمیں رشتوں کو نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع دیا ہے؟ یہ سوال صرف جذباتی یا ادبی نہیں، بلکہ فکری، سماجی اور تہذیبی پیچیدگیوں سے جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس موضوع پر سنجیدہ غور و فکر، مشاہدہ اور تجزیہ ناگزیر ہے۔ روایتی سماجی تناظر برصغیر، مشرق وسطیٰ اور متعدد مشرقی معاشروں میں مرد و عورت کے تعلقات پر کڑی نظریں رکھی جاتی ہیں۔ معاشرتی بیانیے میں "عزت"، "غیرت"، اور "شرافت" جیسے الفاظ ایسے استعمال ہوتے ہیں گویا مرد و عورت کے درمیان کسی بھی نوعیت کا ربط فوراً خطرے کی گھنٹی بن جاتا ہو۔ دوستی کو یا تو رومان کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے یا پھر "چھپی محبت" کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں خالص دوستی کا تصور پیدا ہونا ہی دشوار ہے۔ یہ تعصبات محض ذاتی خیالات نہیں بلکہ پورے نظام کی تشکیل میں شامل ہیں۔ اسکولوں، یونیورسٹیوں، خاندانوں اور میڈیا کے ذریعے بچوں کو شروع سے سکھایا جاتا ہے کہ مخالف صنف سے رابطے ایک "حد" سے آگے نہیں بڑھنے چاہییں۔ یہاں تک کہ اگر کوئی لڑکا اور لڑکی سڑک پر ساتھ دیکھے جائیں تو سوالات خودبخود جنم لینے لگتے ہیں۔ مخلوط معاشروں کا مشاہدہ تاہم جب انسان کسی ایسے ماحول میں پہنچتا ہے جہاں مخلوط تعلیم اور آزاد معاشرت ایک معمول ہے، تو بہت کچھ بدلنے لگتا ہے۔ میری تعلیم رشیا اور یوکرائن کے ان اداروں میں ہوئی جہاں مرد و عورت اکٹھے پڑھتے، کام کرتے اور روزمرہ معاملات میں ساتھ چلتے ہیں۔ وہاں ایک مرد اور عورت کے درمیان دوستی نہ تو حیران کن سمجھی جاتی ہے اور نہ مشکوک۔ میرے ذاتی تجربے میں بہت سی خواتین ایسی رہیں جن سے دوستی کا تعلق برسوں پر محیط ہوا، لیکن اس میں نہ کوئی رومانی کشش تھی اور نہ کسی جذباتی غلط فہمی کی گنجائش۔ یہ دوستی ذہنی ہم آہنگی، باہمی احترام، اور بعض اوقات مشترکہ علمی دلچسپیوں پر مبنی تھی۔ آج بھی ان میں سے کئی دوستیاں زندہ ہیں، اور ان کا دائرہ وقت، فاصلے یا معاشرتی فاصلوں سے متاثر نہیں ہوتا۔ نفسِ انسانی، جبلّت اور نیت یہ بات ماننا ضروری ہے کہ انسان ایک جذباتی اور فطری مخلوق ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان کشش ایک قدرتی عنصر ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر تعلق کشش کی بنیاد پر ہی جنم لیتا ہے؟ کیا شعور، ارادہ، اور نیت جیسے عوامل اس فطرت پر قابو نہیں پا سکتے؟ انسان کے شعور نے اسے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ جبلّت پر قابو پا سکے، اپنی نیت کو پرکھے، اور اپنے رویوں کو اخلاقی اصولوں کے تابع رکھے۔ اگر دو افراد ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کا رشتہ اس نیت سے قائم کرتے ہیں کہ اس میں احترام، خلوص اور فکری اشتراک ہو، تو پھر یہ تعلق کسی بھی قسم کی رومانوی یا جنسی الجھن سے پاک رہ سکتا ہے۔ دوستی کے ممکنہ رنگ یہ بھی مان لینا چاہیے کہ مرد و عورت کے درمیان ہر رشتہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ دوستیوں میں ذہنی قربت زیادہ ہوتی ہے، کچھ میں وقتی کشش بھی شامل ہو سکتی ہے، کچھ محض رسمی یا پیشہ ورانہ سطح پر قائم ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک فریق دوستی کو دوستی ہی سمجھتا ہے جبکہ دوسرا اسے کچھ اور رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام دوستیوں کی بنیاد میں کوئی پوشیدہ جذبہ کام کر رہا ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر تعلق کو اس کی نوعیت کے مطابق سمجھیں۔ اور نہ ہر دوستی کو مشکوک نظروں سے دیکھیں، نہ ہر مسکراہٹ کو اشارہ سمجھیں۔ ادب، میڈیا اور فلم کا کردار ادب، فلم اور میڈیا نے بھی اس تصور کو کچھ خاص مدد نہیں دی۔ زیادہ تر کہانیوں میں مرد و عورت کی دوستی کو آخرکار محبت میں تبدیل ہوتا دکھایا گیا ہے، گویا دوستی محض ابتدائی باب ہو، اصل کہانی تو بعد میں شروع ہوتی ہے۔ یہ مسلسل بیانیہ اس تاثر کو پختہ کرتا ہے کہ دوستی کبھی "دوستی" نہیں رہ سکتی۔ یہاں ہمیں ان مثالوں کی تلاش بھی کرنی چاہیے جن میں مرد و عورت نے واقعی خالص دوستی کا مظاہرہ کیا ہو، اور وہ وقت کی آزمائشوں میں ثابت قدم رہی ہو۔ بدقسمتی سے میڈیا ایسے تعلقات کو کم جگہ دیتا ہے، اس لیے عام ذہن میں محبت کا غلبہ ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ جدید نسل اور بدلتا زاویہ تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ نئی نسل اب ان حدود کو چیلنج کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا، مشترکہ کام کی جگہیں، آن لائن فورمز اور بین الاقوامی تعلیمی مواقع نے نوجوانوں کو ایک نئی دنیا سے متعارف کروایا ہے۔ یہاں مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ برابری، خودمختاری اور اعتماد کی بنیاد پر رشتہ قائم کرتے ہیں۔ "پلیٹونک ریلیشن شپ" یعنی ایسی دوستی جس میں محبت یا جنسی کشش شامل نہ ہو، اب ایک قابلِ فہم اور قابلِ قبول تصور بنتا جا رہا ہے۔ یہ تعلقات ہمیں سکھاتے ہیں کہ انسانوں کے درمیان قربت ہمیشہ جذباتی یا رومانوی نہیں ہوتی، بلکہ فکری، روحانی یا اخلاقی بھی ہو سکتی ہے۔ نتیجہ تو کیا مرد اور عورت کے درمیان خالص دوستی ممکن ہے؟ میرا جواب ہے: ہاں، ممکن ہے۔ لیکن اس کے لیے معاشرتی تربیت، فکری بلوغت، اور ذاتی نیت کی درستگی لازمی ہے۔ ہمیں اس سوال کو صرف ادب یا فلسفے کے اقوال سے نہیں، بلکہ زمینی حقیقت اور انسانی تجربات کی روشنی میں دیکھنا ہوگا۔ جب ہم تعلقات کو احترام، حدود اور نیت کی بنیاد پر استوار کریں گے، تبھی ہم دوستی جیسے قیمتی رشتے کو اس کے حقیقی مقام پر سمجھ سکیں گے—چاہے وہ مرد و عورت کے درمیان ہو یا کسی بھی دو انسان کے درمیان۔ ندیم احمد فاروقی