اشاعتیں

خاموشی میں پلتی نئی دنیا

تصویر
خاموشی میں پلتی ہوئی نئی دنیا صبح کی روشنی ئیں پہاڑوں سے نہیں، موبائل کی اسکرین سے آتی ہے۔ چائے کی خوشبو کے ساتھ TikTok کی آوازیں، اور تنہائی میں Facebook کے نوٹیفکیشن۔ یہ نئی دنیا ہے جہاں خاموشی بھی مصروف ہے، اور خواب بھی ڈیجیٹل ہو چکے ہیں۔ مگر اس شور میں، کیا ہم خود کو سن پا رہے ہیں؟ کبھی صبح کا آغاز اذان کی آواز سے ہوتا تھا، یا ماں کے ہاتھ کی چائے سے۔ اب الارم بجتا ہے، اسکرین روشن ہوتی ہے، اور انگلیاں بے ساختہ انسٹاگرام کی طرف بڑھتی ہیں۔ یہ تبدیلی صرف عادتوں کی نہیں، روح کی بھی ہے۔ ہم وہی لوگ ہیں، مگر ہماری صبحیں بدل گئی ہیں۔ اور شاید ہماری خاموشیاں بھی۔ موبائل اب صرف رابطے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک دنیا ہے۔ اس میں خواب ہیں، کام ہیں، محبتیں ہیں، اور تنہائیاں بھی ہیں۔ ایک نوجوان جو پہاڑوں میں رہتا ہے، اب دنیا بھر کے کلائنٹس سے بات کرتا ہے۔ ایک لڑکی جو کبھی صرف گھر کی دیواروں تک محدود تھی، اب  ویڈیوز میں نظر  آرہی ہے۔ یہ سب کچھ خوبصورت ہے، مگر اس میں ایک سوال بھی چھپا ہے، کیا ہم اس نئی دنیا میں خود کو کھو رہے ہیں یا پا رہے ہیں؟ خاموشی کا شور خاموشی پہلے تنہائی کی علامت تھ...

رازق بھی، محافظ بھی — کائناتی توازن اور انسانی مرکزیت کا فلسفیانہ تجزیہ

تصویر
  رازق بھی، محافظ بھی — کائناتی  توازن اور انسانی مرکزیت کا فلسفیانہ تجزیہ کائنات کی کارگزاری کو سمجھنے کی انسانی جستجو ہمیشہ دو سوالوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ کیا یہ نظام کسی ماورائی قوت کی مرضی سے چلتا ہے، یا یہ محض فطری قوانین کا نتیجہ ہے؟ یہ سوال مذہب سے زیادہ انسان کی فکری فطرت سے جڑا ہے۔ سوچیے، ایک چیتا پوری قوت سے ہرن پر حملہ کرتا ہے۔ چیتے کے لیے یہ رزق کا لمحہ ہے، اور وہ "رازق" کو یاد کرتا ہے۔ ہرن کے لیے یہ زندگی اور موت کی جنگ ہے، اور وہ "محافظ" سے امید رکھتا ہے۔ نتیجہ کچھ بھی ہو، دونوں اپنے یقین کو سچا سمجھیں گے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسان کسی واقعے کا صرف مشاہدہ نہیں کرتا بلکہ اسے قدر اور مفہوم عطا کرتا ہے۔ انسانی مرکزیت — ایک فکری عادت فلسفے میں “انسانی مرکزیت” سے مراد وہ رویہ ہے جس میں انسان کائنات کو اپنے زاویے سے پرکھتا ہے۔ سترھویں صدی کے فلسفی اسپینوزا نے کہا تھا کہ انسان فطرت کو اپنی خواہشات اور خوف کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ اور پھر انہی جذبات کے مطابق چیزوں کو خیر و شر کے معنی دیتا ہے۔ یوں چیتے کے لیے کامیابی "نعمت" بن جاتی ہے، ...

ٹھہراؤ کی زبان: سکون

ٹھہراؤ کی زبان سکون  کسی پہاڑ کی چوٹی پر نہیں  کسی بند خانقاہ میں بھی نہیں  وہ تو  ایک لمحے کی سانس میں چھپا ہوتا ہے  جب ہم  زندگی کو روکنے کی ضد چھوڑ دیتے ہیں۔ نہ کوئی جستجو  نہ کوئی فتح  بس ایک نرم سی روانی  جیسے بارش  کسی پرانے کمرے کی چھت پر گرتی ہو  اور ہم  گننا چھوڑ دیں قطرے۔ ہم نے عمر بھر  سکون کو تلاش کیا  راستوں میں، کتابوں میں، چہروں میں  مگر وہ تو  ہماری تلاش سے تھک کر  کسی خاموش گوشے میں بیٹھ گیا تھا۔ سکون  تلاش سے نہیں آتا  وہ تو آتا ہے  جب ہم رک جاتے ہیں  اور زندگی کو  اس کی اپنی زبان میں بولنے دیتے ہیں۔ جیسے دریا  اپنی موجوں کو نہیں روکتا  جیسے ہوا  اپنے رخ کو نہیں بدلتی  ویسے ہی  زندگی بھی چاہتی ہے  کہ ہم اسے بس ہونے دیں۔ ٹھہرنا  کمزوری نہیں  یہ تو وہ ہنر ہے  جو وقت کو سننے کی اجازت دیتا ہے  جو لمحے کو  اس کی پوری گہرائی میں محسوس کرتا ہے۔ سکون  کوئی منزل نہیں...

خاموشی کا شعور — رومی کی روشنی میں ایک جمالیاتی اور اخلاقی تجربہ

تصویر
خاموشی کا شعور — رومی کی روشنی میں ایک جمالیاتی اور اخلاقی تجربہ خاموشی ایک آواز ہے۔ ایسی آواز جو سنائی نہیں دیتی، مگر سننے والے کو اندر سے ہلا دیتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب لفظ تھم جاتے ہیں، اور دل بولنے لگتا ہے۔ رومی نے کہا تھا:  "خاموشی ایک زبان ہے، خدا اس کا عاشق ہے۔" یہ زبان نہ فارسی ہے، نہ عربی، نہ اردو۔ یہ دل کی زبان ہے۔ وہ زبان جو صرف تب بولی جاتی ہے جب انسان خود سے باہر نکل کر اپنے اندر داخل ہوتا ہے۔  یہ ایک ایسا شعور ہے جو خاموشی میں جنم لیتا ہے، اور خاموشی میں ہی مکمل ہوتا ہے۔ پہلا لمحہ: شور سے فرار ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر لمحہ شور ہے۔ خبروں کا شور، سوشل میڈیا کا شور، رشتوں کا شور، اور سب سے بڑھ کر—اندر کا شور۔ ہر شخص کچھ کہنا چاہتا ہے، کچھ ثابت کرنا چاہتا ہے، کچھ دکھانا چاہتا ہے۔ مگر رومی ہمیں ایک اور راستہ دکھاتے ہیں: "جب تم خاموش ہو جاتے ہو، تب تم سننے لگتے ہو۔" یہ سننا صرف دوسروں کی بات نہیں، بلکہ اپنی روح کی سرگوشی ہے۔ وہ سرگوشی جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کون ہیں، کیا چاہتے ہیں، اور کس چیز سے ڈرتے ہیں۔ دوسرا لمحہ: خاموشی بطور عبادت رو...

عوام ، ریاست اور وسائل کی ملکیت

تصویر
  عوام ، ریاست اور وسائل کی ملکیت ریاست ایک سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ ہے، ج س کا مقصد عوام کی نمائندگی اور نظم قائم رکھنا ہے۔ ریاست  زمین یا اس کے وسائل کی مالک نہیں ہوتی۔ زمین اور اس کے اندر اور باہر موجود معدنیات ہمیشہ مقامی افراد اور برادریوں کی ملکیت ہوتے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان کا تحفظ کرے اور ان وسائل کو عوام کی بھلائی کے لیے  استعمال کرے۔ اور وسائل پر عوام کے حق کو یقینی بنائے۔ جب ریاست یا حکومت اپنے دائرے سے تجاوز کر کے زمین اور وسائل کو اپنی ملکیت سمجھنے لگتی ہے، تو یہ قبضہ اور عوامی حقوق کی پامالی بن جاتا ہے۔ پاکستان میں آج یہی تضاد سب سے زیادہ نمایاں ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان اصل مالکان یعنی عوام کو ہے۔ تاریخی پس منظر اور پختون بیلٹ پشتون خطہ صدیوں سے مختلف سلطنتوں کے زیر اثر رہا ہے۔ مغل، رنجیت سنگھ اور پھر انگریز یہاں حکومت کرتے رہے۔ ان سب کے باوجود زمین اور روزمرہ کے وسائل مقامی لوگوں کے تھے، جو اپنی محنت سے زندگی گزار رہے تھے۔ 1893 میں برطانوی راج نے ڈیورنڈ لائن کھینچ کر پشتون بیلٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ یوں یہ خطہ ہمیشہ عسکری اور جغ...

صدر ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ

تصویر
  صدر ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ غزہ کی زمین اس وقت دنیا کے سب سے بڑے انسانی المیے کا استعارہ بن چکی ہے۔ مہینوں سے جاری بمباری، لاشوں کے ڈھیر، معصوم بچوں کی چیخیں، بھوک سے بلکتے خاندان اور ملبے میں دبے خواب سب کچھ ہمارے سامنے ہیں۔ اسی پس منظر میں  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک امن منصوبہ پیش کیا ہے، جسے انہوں نے "جنگ کے بعد کی صبح" کا نام دیاہے۔  منصوبہ بظاہر بیس نکات پر مشتمل ہے اور امن کی طرف ایک قدم دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب اس پر باریک نگاہ ڈالی جاتی ہے تو کئی ایسے سوال ابھرتے ہیں جو اس کے خلوص اور عملیت دونوں پر سایہ ڈالتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ منصوبہ واقعی امن کا ضامن ہے؟ یا یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں کمزور کو مزید کمزور کرنے کی تیاری کی گئی ہے؟ منصوبے کی بنیادی جھلک  صدر ٹرمپ کے منصوبے کی شقیں پہلی نظر میں ایک امن پسند خاکہ معلوم ہوتی ہیں۔ جنگ بندی اس وقت ہوگی جب "دونوں فریق" راضی ہوں۔ اسرائیل کے منصوبہ قبول کرنے کے 72 گھنٹے بعد تمام یرغمالیوں (زندہ یا مردہ) کی واپسی ہوگی۔ قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔ 250 عمر قید کے قیدی، 1700 فلسطینی باشندے، خواتی...

سوشل میڈیا یونیورسٹی — جہاں سب پروفیسر ہیں

تصویر
  سوشل میڈیا یونیورسٹی — جہاں سب پروفیسر ہیں دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی نہ ہارورڈ ہے، نہ آکسفورڈ اور نہ ہی کسی مشہور شہر کی کوئی پرانی درسگاہ۔ اصل یونیورسٹی تو وہ ہے جو ہماری جیب میں موجود چھوٹے سے موبائل فون کے اندر چھپی ہے۔ جی ہاں، یہی ہے “سوشل میڈیا یونیورسٹی” جہاں ہر انسان بغیر کسی امتحان یا انٹری ٹیسٹ کے پروفیسر بن سکتا ہے۔ یہ یونیورسٹی بڑی فراخ دل ہے۔ یہاں نہ داخلہ ٹیسٹ ہے، نہ فیس، نہ ہی حاضری کا جھنجھٹ۔ صرف ایک اکاؤنٹ بنائیں، پروفائل پکچر لگائیں، اور آپ اگلے دن سے کلاس لینے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ یہ ادارہ کسی بورڈ یا تعلیمی کمیشن سے رجسٹرڈ نہیں، لیکن دنیا کی سب سے بڑی ڈگریاں یہی بانٹتا ہے۔ “ڈاکٹرآف  لائکس” ، “پروفیسر آف  شیئرز”،  "پروفیسر آف کاپی پیسٹ"، اور “فلاسفر  آف کمنٹس” کی ڈگریاں اس یونیورسٹی سے بہت ہی کم وقت میں مل جاتی ہیں۔ ٹائم لائن بطور کلاس روم اگر آپ سوچتے ہیں کہ اس یونیورسٹی کی عمارت کہاں ہے تو جناب اس کا جواب بہت آسان ہے۔ اس کے لیکچر ہال دراصل آپ کی ٹائم لائن ہیں۔ ہر پوسٹ ایک نیا لیکچر، ہر میم ایک پریکٹیکل اور ہر کمنٹ ایک viva  ex...