اشاعتیں

2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

جب مصنوعی ذہانت غلط بولنے لگے۔

تصویر
  جب مصنوعی ذہانت غلط بولنے لگے: علم، تحقیق اور اعتماد کا نیا بحران دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ کل تک جو کچھ انسان کی سوچ، تحقیق یا تخیل کی حدوں میں تھا، آج وہ مشینوں کے الگورتھم میں قید ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) اب وہ اصطلاح نہیں رہی جو صرف سائنس دانوں یا انجینئروں کی زبان پر ہو . یہ ہمارے روزمرہ فیصلوں، معلومات، حتیٰ کہ ہمارے یقین تک میں داخل ہو چکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ نظام اتنا قابلِ اعتماد ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں؟ علم اور ڈیٹا کا سمندر — مگر پانی کتنا صاف؟ مصنوعی ذہانت کا پورا ڈھانچہ ڈیٹا پر کھڑا ہے۔ جو کچھ انٹرنیٹ پر موجود ہے، مضامین، کتابیں، خبریں، سوشل میڈیا کے جملے، اور سب کچھ  یہ نظام اسی سے سیکھتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود ہر چیز درست نہیں۔ جب ڈیٹا میں خامی ہو تو نتیجہ بھی خام ہوتا ہے۔ ایسے میں بعض ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کئی ماڈیولز نے موجود ڈیٹا کا بیشتر حصہ استعمال کر لیا ہے۔ اب جب ان سے ایسے سوالات کیے جاتے ہیں جن کا واضح جواب ڈیٹا میں نہیں، تو یہ نظام خود سے فرضی معلومات گھڑنے لگتا ہے  جیسے ہم مصنوعی سچ کہہ سکتے ہیں۔ جب ی...

خاموشی میں پلتی نئی دنیا

تصویر
خاموشی میں پلتی ہوئی نئی دنیا صبح کی روشنی ئیں پہاڑوں سے نہیں، موبائل کی اسکرین سے آتی ہے۔ چائے کی خوشبو کے ساتھ TikTok کی آوازیں، اور تنہائی میں Facebook کے نوٹیفکیشن۔ یہ نئی دنیا ہے جہاں خاموشی بھی مصروف ہے، اور خواب بھی ڈیجیٹل ہو چکے ہیں۔ مگر اس شور میں، کیا ہم خود کو سن پا رہے ہیں؟ کبھی صبح کا آغاز اذان کی آواز سے ہوتا تھا، یا ماں کے ہاتھ کی چائے سے۔ اب الارم بجتا ہے، اسکرین روشن ہوتی ہے، اور انگلیاں بے ساختہ انسٹاگرام کی طرف بڑھتی ہیں۔ یہ تبدیلی صرف عادتوں کی نہیں، روح کی بھی ہے۔ ہم وہی لوگ ہیں، مگر ہماری صبحیں بدل گئی ہیں۔ اور شاید ہماری خاموشیاں بھی۔ موبائل اب صرف رابطے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک دنیا ہے۔ اس میں خواب ہیں، کام ہیں، محبتیں ہیں، اور تنہائیاں بھی ہیں۔ ایک نوجوان جو پہاڑوں میں رہتا ہے، اب دنیا بھر کے کلائنٹس سے بات کرتا ہے۔ ایک لڑکی جو کبھی صرف گھر کی دیواروں تک محدود تھی، اب  ویڈیوز میں نظر  آرہی ہے۔ یہ سب کچھ خوبصورت ہے، مگر اس میں ایک سوال بھی چھپا ہے، کیا ہم اس نئی دنیا میں خود کو کھو رہے ہیں یا پا رہے ہیں؟ خاموشی کا شور خاموشی پہلے تنہائی کی علامت تھ...

رازق بھی، محافظ بھی — کائناتی توازن اور انسانی مرکزیت کا فلسفیانہ تجزیہ

تصویر
  رازق بھی، محافظ بھی — کائناتی  توازن اور انسانی مرکزیت کا فلسفیانہ تجزیہ کائنات کی کارگزاری کو سمجھنے کی انسانی جستجو ہمیشہ دو سوالوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ کیا یہ نظام کسی ماورائی قوت کی مرضی سے چلتا ہے، یا یہ محض فطری قوانین کا نتیجہ ہے؟ یہ سوال مذہب سے زیادہ انسان کی فکری فطرت سے جڑا ہے۔ سوچیے، ایک چیتا پوری قوت سے ہرن پر حملہ کرتا ہے۔ چیتے کے لیے یہ رزق کا لمحہ ہے، اور وہ "رازق" کو یاد کرتا ہے۔ ہرن کے لیے یہ زندگی اور موت کی جنگ ہے، اور وہ "محافظ" سے امید رکھتا ہے۔ نتیجہ کچھ بھی ہو، دونوں اپنے یقین کو سچا سمجھیں گے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسان کسی واقعے کا صرف مشاہدہ نہیں کرتا بلکہ اسے قدر اور مفہوم عطا کرتا ہے۔ انسانی مرکزیت — ایک فکری عادت فلسفے میں “انسانی مرکزیت” سے مراد وہ رویہ ہے جس میں انسان کائنات کو اپنے زاویے سے پرکھتا ہے۔ سترھویں صدی کے فلسفی اسپینوزا نے کہا تھا کہ انسان فطرت کو اپنی خواہشات اور خوف کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ اور پھر انہی جذبات کے مطابق چیزوں کو خیر و شر کے معنی دیتا ہے۔ یوں چیتے کے لیے کامیابی "نعمت" بن جاتی ہے، ...

ٹھہراؤ کی زبان: سکون

ٹھہراؤ کی زبان سکون  کسی پہاڑ کی چوٹی پر نہیں  کسی بند خانقاہ میں بھی نہیں  وہ تو  ایک لمحے کی سانس میں چھپا ہوتا ہے  جب ہم  زندگی کو روکنے کی ضد چھوڑ دیتے ہیں۔ نہ کوئی جستجو  نہ کوئی فتح  بس ایک نرم سی روانی  جیسے بارش  کسی پرانے کمرے کی چھت پر گرتی ہو  اور ہم  گننا چھوڑ دیں قطرے۔ ہم نے عمر بھر  سکون کو تلاش کیا  راستوں میں، کتابوں میں، چہروں میں  مگر وہ تو  ہماری تلاش سے تھک کر  کسی خاموش گوشے میں بیٹھ گیا تھا۔ سکون  تلاش سے نہیں آتا  وہ تو آتا ہے  جب ہم رک جاتے ہیں  اور زندگی کو  اس کی اپنی زبان میں بولنے دیتے ہیں۔ جیسے دریا  اپنی موجوں کو نہیں روکتا  جیسے ہوا  اپنے رخ کو نہیں بدلتی  ویسے ہی  زندگی بھی چاہتی ہے  کہ ہم اسے بس ہونے دیں۔ ٹھہرنا  کمزوری نہیں  یہ تو وہ ہنر ہے  جو وقت کو سننے کی اجازت دیتا ہے  جو لمحے کو  اس کی پوری گہرائی میں محسوس کرتا ہے۔ سکون  کوئی منزل نہیں...

خاموشی کا شعور — رومی کی روشنی میں ایک جمالیاتی اور اخلاقی تجربہ

تصویر
خاموشی کا شعور — رومی کی روشنی میں ایک جمالیاتی اور اخلاقی تجربہ خاموشی ایک آواز ہے۔ ایسی آواز جو سنائی نہیں دیتی، مگر سننے والے کو اندر سے ہلا دیتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب لفظ تھم جاتے ہیں، اور دل بولنے لگتا ہے۔ رومی نے کہا تھا:  "خاموشی ایک زبان ہے، خدا اس کا عاشق ہے۔" یہ زبان نہ فارسی ہے، نہ عربی، نہ اردو۔ یہ دل کی زبان ہے۔ وہ زبان جو صرف تب بولی جاتی ہے جب انسان خود سے باہر نکل کر اپنے اندر داخل ہوتا ہے۔  یہ ایک ایسا شعور ہے جو خاموشی میں جنم لیتا ہے، اور خاموشی میں ہی مکمل ہوتا ہے۔ پہلا لمحہ: شور سے فرار ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر لمحہ شور ہے۔ خبروں کا شور، سوشل میڈیا کا شور، رشتوں کا شور، اور سب سے بڑھ کر—اندر کا شور۔ ہر شخص کچھ کہنا چاہتا ہے، کچھ ثابت کرنا چاہتا ہے، کچھ دکھانا چاہتا ہے۔ مگر رومی ہمیں ایک اور راستہ دکھاتے ہیں: "جب تم خاموش ہو جاتے ہو، تب تم سننے لگتے ہو۔" یہ سننا صرف دوسروں کی بات نہیں، بلکہ اپنی روح کی سرگوشی ہے۔ وہ سرگوشی جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کون ہیں، کیا چاہتے ہیں، اور کس چیز سے ڈرتے ہیں۔ دوسرا لمحہ: خاموشی بطور عبادت رو...

عوام ، ریاست اور وسائل کی ملکیت

تصویر
  عوام ، ریاست اور وسائل کی ملکیت ریاست ایک سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ ہے، ج س کا مقصد عوام کی نمائندگی اور نظم قائم رکھنا ہے۔ ریاست  زمین یا اس کے وسائل کی مالک نہیں ہوتی۔ زمین اور اس کے اندر اور باہر موجود معدنیات ہمیشہ مقامی افراد اور برادریوں کی ملکیت ہوتے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان کا تحفظ کرے اور ان وسائل کو عوام کی بھلائی کے لیے  استعمال کرے۔ اور وسائل پر عوام کے حق کو یقینی بنائے۔ جب ریاست یا حکومت اپنے دائرے سے تجاوز کر کے زمین اور وسائل کو اپنی ملکیت سمجھنے لگتی ہے، تو یہ قبضہ اور عوامی حقوق کی پامالی بن جاتا ہے۔ پاکستان میں آج یہی تضاد سب سے زیادہ نمایاں ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان اصل مالکان یعنی عوام کو ہے۔ تاریخی پس منظر اور پختون بیلٹ پشتون خطہ صدیوں سے مختلف سلطنتوں کے زیر اثر رہا ہے۔ مغل، رنجیت سنگھ اور پھر انگریز یہاں حکومت کرتے رہے۔ ان سب کے باوجود زمین اور روزمرہ کے وسائل مقامی لوگوں کے تھے، جو اپنی محنت سے زندگی گزار رہے تھے۔ 1893 میں برطانوی راج نے ڈیورنڈ لائن کھینچ کر پشتون بیلٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ یوں یہ خطہ ہمیشہ عسکری اور جغ...

صدر ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ

تصویر
  صدر ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ غزہ کی زمین اس وقت دنیا کے سب سے بڑے انسانی المیے کا استعارہ بن چکی ہے۔ مہینوں سے جاری بمباری، لاشوں کے ڈھیر، معصوم بچوں کی چیخیں، بھوک سے بلکتے خاندان اور ملبے میں دبے خواب سب کچھ ہمارے سامنے ہیں۔ اسی پس منظر میں  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک امن منصوبہ پیش کیا ہے، جسے انہوں نے "جنگ کے بعد کی صبح" کا نام دیاہے۔  منصوبہ بظاہر بیس نکات پر مشتمل ہے اور امن کی طرف ایک قدم دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب اس پر باریک نگاہ ڈالی جاتی ہے تو کئی ایسے سوال ابھرتے ہیں جو اس کے خلوص اور عملیت دونوں پر سایہ ڈالتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ منصوبہ واقعی امن کا ضامن ہے؟ یا یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں کمزور کو مزید کمزور کرنے کی تیاری کی گئی ہے؟ منصوبے کی بنیادی جھلک  صدر ٹرمپ کے منصوبے کی شقیں پہلی نظر میں ایک امن پسند خاکہ معلوم ہوتی ہیں۔ جنگ بندی اس وقت ہوگی جب "دونوں فریق" راضی ہوں۔ اسرائیل کے منصوبہ قبول کرنے کے 72 گھنٹے بعد تمام یرغمالیوں (زندہ یا مردہ) کی واپسی ہوگی۔ قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔ 250 عمر قید کے قیدی، 1700 فلسطینی باشندے، خواتی...

سوشل میڈیا یونیورسٹی — جہاں سب پروفیسر ہیں

تصویر
  سوشل میڈیا یونیورسٹی — جہاں سب پروفیسر ہیں دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی نہ ہارورڈ ہے، نہ آکسفورڈ اور نہ ہی کسی مشہور شہر کی کوئی پرانی درسگاہ۔ اصل یونیورسٹی تو وہ ہے جو ہماری جیب میں موجود چھوٹے سے موبائل فون کے اندر چھپی ہے۔ جی ہاں، یہی ہے “سوشل میڈیا یونیورسٹی” جہاں ہر انسان بغیر کسی امتحان یا انٹری ٹیسٹ کے پروفیسر بن سکتا ہے۔ یہ یونیورسٹی بڑی فراخ دل ہے۔ یہاں نہ داخلہ ٹیسٹ ہے، نہ فیس، نہ ہی حاضری کا جھنجھٹ۔ صرف ایک اکاؤنٹ بنائیں، پروفائل پکچر لگائیں، اور آپ اگلے دن سے کلاس لینے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ یہ ادارہ کسی بورڈ یا تعلیمی کمیشن سے رجسٹرڈ نہیں، لیکن دنیا کی سب سے بڑی ڈگریاں یہی بانٹتا ہے۔ “ڈاکٹرآف  لائکس” ، “پروفیسر آف  شیئرز”،  "پروفیسر آف کاپی پیسٹ"، اور “فلاسفر  آف کمنٹس” کی ڈگریاں اس یونیورسٹی سے بہت ہی کم وقت میں مل جاتی ہیں۔ ٹائم لائن بطور کلاس روم اگر آپ سوچتے ہیں کہ اس یونیورسٹی کی عمارت کہاں ہے تو جناب اس کا جواب بہت آسان ہے۔ اس کے لیکچر ہال دراصل آپ کی ٹائم لائن ہیں۔ ہر پوسٹ ایک نیا لیکچر، ہر میم ایک پریکٹیکل اور ہر کمنٹ ایک viva  ex...

ہماری تعلیمی نظام کا ایک جائزہ

تصویر
  " ہماری تعلیمی نظام کا ایک جائزہ" تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا زینہ ہوتی ہے، لیکن ہمارے ہاں تعلیم کا زینہ ایسا ہے کہ چڑھنے والا بندہ یا تو پھسل کر نیچے آ جاتا ہے یا پھر اتنا تھک جاتا ہے کہ خود ہی بیٹھ جاتا ہے۔ اسکول بھیجتے وقت والدین کے خواب آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی بچہ اسکول سے واپسی پر بستے کا وزن گھسیٹ رہا ہوتا ہے، ان کے ارمان بھی بستے کے ساتھ زمین پر رگڑ کھانے لگتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں کتابیں وہی بھاری ہیں، جو کندھوں کے لیے بوجھ اور دماغ کے لیے ہلکی ہوتی ہیں۔ اکثر لگتا ہے کہ بچوں کے اسکول بیگز میں کتابیں نہیں، بلکہ اینٹیں بھری ہیں۔ وزن کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر کوئی بچہ غصے میں بستہ زمین پر دے مارے، تو زمین میں ایک گڑھا پڑ جائے۔ علم کی روشنی کے یہ دیپ اتنے بھاری ہوتے ہیں کہ خود علم بھی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اسے اتنا بوجھ کیوں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اب اگر نصاب کی بات کی جائے، تو یہ وہ جادوئی چیز ہے جس میں تازگی ناپید ہے۔ کچھ کتابیں ایسی ہیں جنہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید علامہ اقبال نے خود چھاپ کر دی ہوں، اور کچھ میں ایسے مضامین ہیں جیسے آج کے...

"ایک شوہر کی کہانی – بیگمات سے معذرت کے ساتھ "۔

تصویر
  "ایک شوہر کی کہانی – بیگمات سے معذرت کے ساتھ " ۔ "شادی وہ لڈو ہے جو کھائے وہ بھی پچھتائے، جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے!" یہ جملہ سنتے ہی کئی "شادی شدہ محاذ کے سپاہی" تلخی سے مسکرا دیتے ہیں، اور کئی غیر شادی شدہ افراد بے گناہ ہرنی کی طرح آنکھیں پھاڑ کر پوچھتے ہیں: "یہ آخر حقیقت ہے یا مبالغہ؟" تو آئیے، ایک شوہر کی مکمل، تفصیلی اور صداقت پر مبنی داستانِ حیات سنتے ہیں، تاکہ ہر کنوارہ اپنی غلطی اور ہر شادی شدہ اپنی قسمت پر غور کر سکے۔ پہلا دن – "خوابوں کی جنت" دلہا جب پہلی بار دلہن کے ساتھ گھر کے انگن  میں آ تا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بادشاہ اپنی ریاست میں واپس آیا ہو۔ سارا خاندان محبت سے دیکھ رہا ہوتا ہے، دوست مبارکبادیں دے رہے ہوتے ہیں، اور بیوی کے چہرے پر معصومیت اور ہلکی سی جھجک ہوتی ہے۔ شوہر دل میں کہتا ہے: "یہ لمحہ زندگی بھر یاد رہے گا!" اور قسمت دل میں ہنستی ہے: "بالکل! خاص طور پر جب بیوی کی فرمائشیں شروع ہوں گی!" پہلا ہفتہ – "محبت کے گلاب" یہ ہفتہ ایسا ہوتا ہے کہ شوہر کو لگتا ہے گویا اس...

پرانے وقتوں کے علاج سے آج کے مہنگے علاج تک — کیا بدلا اور کیا ویسا ہی رہا؟

تصویر
پرانے وقتوں کے علاج سے آج کے مہنگے علاج تک — کیا بدلا اور کیا ویسا ہی رہا؟ انسان کی تاریخ اگر دیکھی جائے تو بیماری اس کا سب سے پرانا دشمن ہے۔ تہذیب کے آغاز سے آج تک انسان نے جس جس محاذ پر جنگ لڑی ہے، ان میں بیماری سب سے زیادہ دیرپا اور سب سے زیادہ سفاک ثابت ہوئی۔ فرق صرف یہ ہے کہ پرانے وقتوں میں انسان بیماری کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتا تھا۔ اور آج وہ اس کے علاج کی قیمت برداشت نہ کر پانے پر مجبور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صدیوں کا سفر ہمیں بیماری سے آزادی دے سکا، یا ہم محض ایک نئے جال میں پھنس گئے ہیں؟ پرانے وقتوں کی دوا اور دادی نانی کی الماری ہمارے گھروں میں پرانی الماریاں، لکڑی کے صندوقچے اور کونے میں رکھی شیشیاں یاد آتی ہیں۔ ان ہی میں چھوٹی سی بوتل "امرت دھارا" کی رکھی رہتی تھی جسے عرف عام میں امردارہ کہا جاتا تھا۔ یہ ہر مرض کی دوا سمجھی جاتی تھی۔  ذرا سا قطرہ پانی میں ڈال کر پلایا جاتا تو سمجھا جاتا تھا کہ پیٹ درد، نزلہ، سردرد، سب غائب ہو جائیگا ۔ بچپن میں مجھے بھی یہی" امرت دھارا" کئی دفعہ پلایا گیا ہے۔ اس کا کڑوا ذائقہ اور تیز خوشبو اب بھی یاد ہے۔ اس ...

زندگی بیچ چوراہے میں جہاں کرکٹ اور سیاست کا شور ہے

تصویر
  زندگی بیچ چوراہے میں جہاں کرکٹ اور سیاست کا شور ہے. پاکستان کی گلی کوچوں اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں اگر کوئی دو آوازیں مستقل گونجتی ہیں تو وہ سیاست اور کرکٹ کی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اواز سنائی نہیں دیتی۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ دونوں عناصر ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن چکے ہیں۔ نہ صرف مزاج بلکہ ہماری پوری زندگی بس کرکٹ اور سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کرکٹ اور سیاست کی اس گونج میں کہیں "زندگی" کی آواز تو دب گئی ہے۔ صبح کی ابتدا ہو یا رات کے کھانے کا اختتام، خبروں کا سلسلہ وہیں گھومتا ہے۔ کس نے کس کو نکالا، کون کس کا اتحادی ہے، کون اگلا وزیراعظم بنے گا۔ اور اگر اس میں تھوڑا وقفہ آئے تو فوراً بات ہوتی ہے کرکٹ کی۔ کس نے چھکا مارا، کس نے کیچ چھوڑا، کون سی ٹیم جیتے گی۔ اس ملک کے باسی گویا ان دو میدانوں میں قید ہو چکے ہیں۔ یہاں تک تو خیر بات سمجھ میں آتی ہے۔ ہر ملک کو کسی نہ کسی چیز سے دلچسپی ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب پوری قوم کی سوچ صرف انہی دو موضوعات کے گرد گھومنے لگے۔ اور زندگی کے اصل مسائل ، جیسے مہنگائی، تعلیم، صحت، انصاف، پانی، صاف ہوا سب پس منظر میں چلے ...

پاک۔سعودی دفاعی معاہدہ: ایگریمنٹ یا ٹریٹی؟

تصویر
  پاک۔سعودی دفاعی معاہدہ: ایگریمنٹ  یا  ٹریٹی؟ پاکستانی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے دریچے پر ایک بار پھر ایک نیا باب کھل چکا ہے۔ اسلام آباد اور ریاض کے درمیان دفاعی معاہدے کی خبریں سامنے آتے ہی حکومتی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ میڈیا پر بیانات، پریس کانفرنسیں اور جلسوں میں نعرے سنائی دینے لگے کہ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ عوامی سطح پر بھی یہ خبر جشن کی صورت اختیار کر گئی، اور سوشل میڈیا پر کئی لوگ اس کو پاکستان کی سفارتی جیت قرار دینے لگے۔ مگر ایک بنیادی سوال ابھی تک تشنہ ہے: یہ معاہدہ آخر ہے کیا؟ کیا یہ صرف ایک ایگریمنٹ ہے یا ایک باقاعدہ ٹریٹی (Treaty)؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ملنے تک نہ صرف عوام بلکہ پالیسی سازوں کی خوشی ادھوری ہے۔ کیونکہ دونوں صورتوں کے اثرات، ذمہ داریاں اور نتائج یکسر مختلف ہیں۔ ایگریمنٹ اور ٹریٹی: ایک بنیادی فرق اردو میں ایگریمنٹ کو عام طور پر "معاہدہ" یا "عہد نامہ" کہا جاتا ہے۔ یہ نسبتاً نرم نوعیت کی دستاویز ہوتی ہے جس میں دو یا زیادہ فریقین کسی مخصوص معاملے پر اصولی طور پر اتفاق کرتے ہیں۔ ا...

چین کا معاشی ماڈل: سوشلزم، کیپٹلزم اور نئی راہیں

تصویر
  چین کا معاشی ماڈل: سوشلزم، کیپٹلزم اور نئی راہیں دنیا کی تاریخ میں چند ہی قومیں ایسی رہی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی تقدیر بدلی بلکہ عالمی نظام کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ چین انہی قوموں میں سے ایک ہے۔ ایک ایسا ملک جس نے غربت، غلامی اور پسماندگی کے سائے سے نکل کر دنیا کی دوسری بڑی معیشت کا مقام حاصل کیا۔ لیکن یہ سفر سیدھا نہیں تھا۔ یہ کہانی ہے نظریات کے ٹکراؤ کی، خوابوں اور حقیقت کے بیچ کشمکش کی۔ اور ایک ایسے ماڈل کی جو سوشلسٹ بھی ہے اور سرمایہ دارانہ بھی، مگر دراصل ان دونوں سے مختلف ہے۔ سوشلسٹ بنیاد: ماؤ کا چین 1949ء میں جب ماؤ زے تنگ نے عوامی جمہوریہ چین کا اعلان کیا تو ملک ایک بکھرا ہوا، کمزور اور غربت زدہ خطہ تھا۔ ماؤ نے کارل مارکس اور لینن کے نظریات سے متاثر ہو کر سوشلسٹ ریاست کی بنیاد رکھی۔ زمین جاگیرداروں سے لے کر کسانوں میں تقسیم ہوئی، صنعتوں کو ریاست نے اپنے کنٹرول میں لیا، اور ایک ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کی گئی جہاں مساوات ہو اور استحصال نہ ہو جائے۔ لیکن حقیقت مختلف نکلی۔ "بڑی چھلانگ" جیسی مہمات نے قحط اور تباہی کو جنم دیا۔ پیداوار گر گئی، لاکھوں لوگ بھوک سے مر گئے، ...

امریکی بیانیہ اور خطے کا بدلتا منظرنامہ: عرب دنیا، اسرائیل، اور ایشیائی طاقتوں کی نئی صف بندی

  امریکی بیانیہ اور خطے کا بدلتا منظرنامہ: عرب دنیا، اسرائیل، اور ایشیائی طاقتوں کی نئی صف بندی انیسویں اور بیسویں صدی کا بیشتر حصہ دنیا کے لیے نوآبادیاتی طاقتوں کے زیر سایہ گزرا۔ برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی قوتیں نہ صرف وسائل کی لوٹ مار میں مصروف رہیں بلکہ سرحدوں کو بھی اس انداز سے تشکیل دیا کہ آنے والی نسلوں تک تنازعات کا سلسلہ قائم رہے۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں بیسویں صدی کے وسط میں مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا کی جغرافیائی تقسیم ہوئی۔ آج ہم 1940 اور 1950 کی دہائیوں کے اسی منظرنامے کے عکس کو دوبارہ ابھرتا دیکھ رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب پرانی نوآبادیاتی طاقتوں کی جگہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے لے لی ہے، جبکہ مشرق سے روس اور چین جیسی بڑی قوتیں بھی اس کھیل میں براہِ راست شریک ہیں۔ اسرائیل کا بڑھتا ہوا کردار مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا کردار کسی راز کی طرح ابھرتا ہوا نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے۔ گزشتہ ہفتوں میں اسرائیل نے ایسے ممالک پر فضائی حملے کیے جن میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ یہ حملے بظاہر دفاعی نوعیت کے قرار دیے جا رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعات خطے کے طاقت کے تواز...

امریکہ-اسرائیل اتحاد اور عرب دنیا کی مجبوریوں کا کھیل

  امریکہ-اسرائیل اتحاد اور عرب دنیا کی مجبوریوں کا کھیل مشرق وسطیٰ کا جغرافیہ نہ صرف تیل کی دولت سے مالا مال ہے بلکہ یہ دنیا کے بڑے اسٹریٹجک تنازعات کا مرکز بھی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ خطہ عالمی سیاست کا ایسا اسٹیج بن گیا جہاں امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کے سائے میں اسرائیل اور عرب دنیا کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ آج بھی مشرق وسطیٰ کی بیشتر پالیسیاں ان طاقتوں کے زیرِاثر ہیں جنہوں نے اس خطے کو اپنی اسٹریٹجک بساط کا حصہ بنا رکھا ہے۔ اسرائیل کا قیام اور ابتدائی امریکی حمایت 1948 میں اسرائیل کا قیام ایک ایسا واقعہ تھا جس نے عالمی طاقتوں کے توازن کو بدل کر رکھ دیا۔ امریکہ نے اسرائیل کو قیام کے فوراً بعد تسلیم کیا اور جلد ہی اسے عسکری اور مالی امداد فراہم کرنا شروع کر دی۔ یہ امداد محض اخلاقی یا انسانی بنیادوں پر نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے ایک واضح اسٹریٹجک سوچ تھی: مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو ایک ایسا اتحادی درکار تھا جو خطے میں مغربی مفادات کا محافظ بن سکے۔ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات میں یہ اعتماد وقت کے ساتھ مزید گہرا ہوتا گیا۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد اسرائیل کی ...