عوام ، ریاست اور وسائل کی ملکیت
عوام ، ریاست اور وسائل کی ملکیت
ریاست ایک سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ ہے، جس کا مقصد عوام کی نمائندگی اور نظم قائم رکھنا ہے۔ ریاست زمین یا اس کے وسائل کی مالک نہیں ہوتی۔ زمین اور اس کے اندر اور باہر موجود معدنیات ہمیشہ مقامی افراد اور برادریوں کی ملکیت ہوتے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ان کا تحفظ کرے اور ان وسائل کو عوام کی بھلائی کے لیے استعمال کرے۔ اور وسائل پر عوام کے حق کو یقینی بنائے۔ جب ریاست یا حکومت اپنے دائرے سے تجاوز کر کے زمین اور وسائل کو اپنی ملکیت سمجھنے لگتی ہے، تو یہ قبضہ اور عوامی حقوق کی پامالی بن جاتا ہے۔ پاکستان میں آج یہی تضاد سب سے زیادہ نمایاں ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان اصل مالکان یعنی عوام کو ہے۔
تاریخی پس منظر اور پختون بیلٹ
پشتون خطہ صدیوں سے مختلف سلطنتوں کے زیر اثر رہا ہے۔ مغل، رنجیت سنگھ اور پھر انگریز یہاں حکومت کرتے رہے۔ ان سب کے باوجود زمین اور روزمرہ کے وسائل مقامی لوگوں کے تھے، جو اپنی محنت سے زندگی گزار رہے تھے۔ 1893 میں برطانوی راج نے ڈیورنڈ لائن کھینچ کر پشتون بیلٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ یوں یہ خطہ ہمیشہ عسکری اور جغرافیائی کھیل کا میدان بن گیا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان بندوق کے زور پر وسائل پر قابض ہیں، جبکہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی ادارے آئین کے نام پر قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہے، جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے عوام دہشت گردی، افلاس اور محرومی کے دائرے میں رہتے ہیں۔
وفاق، صوبائی خودمختاری اور مرکزی قبضہ
پاکستان ایک مضبوط وفاق ہے، لیکن یہاں صوبوں کے وسائل پر مرکز کا قبضہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور دیگر مقتدرہ ادارے وفاق اور صوبائی حکومتوں دونوں پر اثر انداز ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مقامی لوگ اپنے وسائل پر کنٹرول کھو دیتے ہیں اور ان کے محنت کے پھل بیرون ممالک یا مرکز کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں۔
صوبائی خودمختاری، لوکل گورنمنٹ، شفاف الیکشن اور مضبوط احتساب کا نظام ہی عوام کو ان کے حق کی ضمانت دے سکتا ہے۔ لیکن جب یہ نظام کمزور ہو، تو وسائل کے سودے بازی اور قبضے کے عمل کا راستہ کھل جاتا ہے۔
معدنیات اور بین الاقوامی سودے
بلوچستان اور خیبرپختونخوا معدنیات سے مالا مال ہیں۔ سونا، تانبا، کوئلہ، ماربل اور دیگر قیمتی معدنیات اس خطے میں موجود ہیں۔ لیکن مقامی آبادی غربت اور پسماندگی کی لپیٹ میں ہے، جبکہ بین الاقوامی کمپنیاں اور وفاقی ادارے ان وسائل پر قابض ہیں۔ عوام کو ان کا حق نہیں دیا جاتا۔
حال ہی میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ معدنیات کی ممکنہ ڈیل نے یہ مسئلہ مزید نمایاں کر دیا۔ پاکستان کی حکومت بیرونی طاقتوں کے ساتھ وسائل پر سودے کر رہی ہے، لیکن مقامی شراکت داری اور عوامی رائے کی غیر موجودگی اس عمل کو غیر منصفانہ اور غیر اخلاقی بناتی ہے۔
اسی سلسلے میں مرکزی حکومت کی طرف سے متعارف کرایا گیا مائنز اینڈ منرلز بل صوبائی وسائل پر براہِ راست کنٹرول قائم کرنے کی کوشش ہے۔ یہ بل صوبائی خودمختاری اور عوامی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ KPK، بلوچستان اور سندھ کے سیاستدانوں نے بارہا اعتراض کیا کہ وفاق صوبائی وسائل پر قبضہ کر کے ایک نئی کالونیل پالیسی نافذ کر رہا ہے۔
بھوک، بے چینی اور شورش
وسائل پر دوسروں کا قبضہ عوام کی غربت اور افلاس کا باعث بنتا ہے۔ بھوک اور محرومی سے پیدا ہونے والی بے چینی شورش اور بغاوت کا دروازہ کھولتی ہے۔ یہی صورتحال پشتون اور بلوچ علاقوں میں واضح ہے، جہاں مقامی لوگ اپنی زمین اور وسائل کے مالک ہونے کے باوجود روزمرہ کی بنیادی ضروریات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
انصاف اور شفافیت
تاریخ بتاتی ہے کہ چاہے مغل ہوں یا انگریز، عوام اپنی زمین کے مالک سمجھے جاتے تھے۔ آج جدید ریاست کے نام پر یہ اصول بدل چکا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ عوام کے وسائل پر قبضہ کب ختم ہوگا؟ ان کی شراکت داری کب ممکن ہوگی ؟ اور وسائل کے منافع کا حق کب مقامی لوگوں تک پہنچے گا۔ جغرافیائی سرحدیں ثانوی ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ ان کے وسائل کب اور کیسے ان کے حق میں آئیں گے۔
اگر ریاست اور حکومت عوام کو ان کے وسائل کا حق نہ دیں اور قبضے اور سودے بازی کا عمل جاری رہا، تو بھوک، بے چینی اور شورش ختم نہیں ہوگی۔ یہ خطہ ہمیشہ خانہ جنگی اور عدم استحکام کا شکار رہے گا۔ حل صرف انصاف اور شفافیت میں ہے۔ صوبائی خودمختاری، مضبوط لوکل گورنمنٹ اور عوام کی نمائندگی کے ذریعے وسائل کی اصل ملکیت عوام کے حوالے کی جائے تو پائیدار امن اور خوشحالی ممکن ہے۔
ریاست کا اصل کام عوام کے حقوق کا تحفظ اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے، نہ کہ ان وسائل پر قبضہ۔ مستقبل کے تنازعات ختم کرنے اور خطے میں دیرپا امن اور ترقی کیلئے صروری ہے کہ عوام کو اپنی زمین اور وسائل پر اختیار دیا جائے تا کہ وہ خوشحال زندگی کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں۔
ندیم احمد فاروقی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں