رازق بھی، محافظ بھی — کائناتی توازن اور انسانی مرکزیت کا فلسفیانہ تجزیہ
رازق بھی، محافظ بھی — کائناتی
توازن اور انسانی مرکزیت کا فلسفیانہ تجزیہ
کائنات کی کارگزاری کو سمجھنے کی انسانی جستجو ہمیشہ دو سوالوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔
کیا یہ نظام کسی ماورائی قوت کی مرضی سے چلتا ہے، یا یہ محض فطری قوانین کا نتیجہ ہے؟
یہ سوال مذہب سے زیادہ انسان کی فکری فطرت سے جڑا ہے۔
سوچیے، ایک چیتا پوری قوت سے ہرن پر حملہ کرتا ہے۔
چیتے کے لیے یہ رزق کا لمحہ ہے، اور وہ "رازق" کو یاد کرتا ہے۔
ہرن کے لیے یہ زندگی اور موت کی جنگ ہے، اور وہ "محافظ" سے امید رکھتا ہے۔
نتیجہ کچھ بھی ہو، دونوں اپنے یقین کو سچا سمجھیں گے۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسان کسی واقعے کا صرف مشاہدہ نہیں کرتا بلکہ اسے قدر اور مفہوم عطا کرتا ہے۔
انسانی مرکزیت — ایک فکری عادت
فلسفے میں “انسانی مرکزیت” سے مراد وہ رویہ ہے جس میں انسان کائنات کو اپنے زاویے سے پرکھتا ہے۔
سترھویں صدی کے فلسفی اسپینوزا نے کہا تھا کہ انسان فطرت کو اپنی خواہشات اور خوف کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ اور پھر انہی جذبات کے مطابق چیزوں کو خیر و شر کے معنی دیتا ہے۔
یوں چیتے کے لیے کامیابی "نعمت" بن جاتی ہے،
اور ہرن کے لیے وہی لمحہ "مصیبت"۔
یہ فرق حقیقت میں نہیں، بلکہ دیکھنے والے کی پوزیشن میں ہے۔
حقیقت کی دو سطحیں
جرمن فلسفی کانٹ کے نزدیک، جو حقیقت ہمیں دکھائی دیتی ہے وہ براہِ راست نہیں بلکہ ہمارے ذہنی سانچوں سے گزر کر آتی ہے۔
چیتے اور ہرن دونوں ایک ہی منظر دیکھتے ہیں، مگر دونوں کے لیے اس کی تعبیر مختلف ہے ۔
کیونکہ ان کے تجربے، خوف، اور مقصد کے زاویے الگ ہیں۔
دوسری طرف، نیٹشے کہتا ہے کہ فطرت میں کوئی اخلاقی قدر موجود نہیں؛
یہ ہم انسان ہیں جو اسے اپنے معنی دیتے ہیں۔
فطرت کے نزدیک چیتے کا جینا اور ہرن کا مرنا،
توانائی کے بہاؤ کا ایک تسلسل ہے ۔
نہ کسی کا جیتنا نعمت ہے، نہ ہارنا عذاب۔
اتفاق، ضرورت اور مشروط حقیقت
فلسفے کے مختلف ادوار میں اس سوال پر تین بڑے زاویے سامنے آئے ہیں:
اتفاق: ارسطو کے نزدیک، اتفاق دراصل وہ ہے جس کی علت ہم فی الحال نہیں جانتے۔
ضرورت: اسپینوزا کے مطابق، کائنات میں ہر شے لازمی قوانین کے تحت چلتی ہے، چاہے ہم ان کو سمجیں یا نہیں ۔
مشروط حقیقت: ہم حقیقت کو ہمیشہ اپنی موجودگی کے دائرے سے سمجھتے ہیں؛
مرکز بدل جائے تو مفہوم بھی بدل جاتا ہے۔
ماورائی ادراک — “یہ معاملہ کوئی اور ہے”
جو واقعات ہمیں ایک دوسرے سے جدا دکھائی دیتے ہیں،
وہ دراصل ایک ہی غیر شخصی اور غیر جذباتی نظام کے مختلف اظہار ہیں۔
یہ نظام جذبات، اخلاق یا کسی ذاتی مرضی کے تابع نہیں بلکہ توازن کے اصول پر قائم ہے۔
“رازق” اور “محافظ” جیسے تصورات انسانی زبان کے بنائے ہوئے سانچے ہیں،
جن سے ہم کائنات کے غیر محسوس اصولوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن حقیقت ان الفاظ سے کہیں بڑی اور آزاد ہے۔
اختتامیہ
جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارے معنیاتی سانچے اور کائنات کی اصل ساخت دو الگ حقیقتیں ہیں،
تو ہم دنیا کو ذاتی یا اخلاقی پیمانے پر نہیں بلکہ توازن اور ضرورت کے پیمانے پر دیکھنے لگتے ہیں۔
اور تب ہمیں یہ گہرا مگر خاموش احساس ہوتا ہے کہ
یہ معاملہ واقعی کوئی اور ہے۔
نوٹ:
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اسپینوزا، کانٹ، نیٹشے اور ارسطو کے فلسفیانہ نظریات سے ماخوذ ہیں،
مگر ان کی تعبیر اور بیان خالصتاً مصنف کی ذاتی فکری تشریح ہے۔
ندیم احمد فاروقی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں