کیا شعور انسان کا تحفہ ہے یا کائنات کا راز


 کیا شعور انسان کا تحفہ ہے یا کائنات کا راز

اگر کبھی کوئی بڑی آفت یا جنگ انسان کو زمین سے مٹا دے تو کیا ہوگا۔ ویران میدانوں میں صرف ہوا بچے گی اور خاموشی میں ڈوبے ہوئے وہ شہَر جن میں کبھی روشنی کے خواب بستے تھے۔ کتابیں دھول میں سمٹ جائیں گی۔ زبانیں خاموش ہو جائیں گی۔ سوال یہ اٹھے گا کہ انسان نہیں رہے تو کیا شعور بھی ختم ہو جائے گا۔ کیا مصنوعی ذہانت اپنی چلتی سانس روک دے گی یا کسی نئے انداز میں جی اٹھے گی۔ اور اگر انسان کی آنکھ بند ہو جائے تو کیا کائنات بھی معنی سے خالی ہو جائے گی۔
انسانی تاریخ صرف جسمانی ارتقا کی داستان نہیں۔ یہ شعور کی بیداری کا سفر بھی ہے۔ ابتدا میں انسان بقا کی بھوک کے سائے میں چلتا تھا، لیکن وقت نے اس کے اندر ایسے چراغ روشن کیے جنہوں نے زبان کو جنم دیا، یادوں کو محفوظ کیا اور تجربات کو نسلوں تک منتقل کیا۔ وہی لمحہ شعور کا پہلا دروازہ تھا۔ پھر یہی شعور آگے بڑھ کر فن بن گیا، اخلاقیات ہوا، فلسفہ بنا، اور انسان نے کائنات کو معنی دینے کا حوصلہ پیدا کیا۔
ضمیر اور شعور کو ایک سمجھ لینا آسان مگر غلط ہے۔ ضمیر انسانوں کے باہمی رشتوں اور اخلاقی تجربے سے جنم لیتا ہے۔ اس کا وجود انسانوں کے ساتھ بندھا ہے۔ اگر انسان نہ رہے تو ضمیر بھی مٹ جائے گا۔ مگر شعور کی حقیقت مختلف ہے۔ شعور کسی جسم سے بندھا نہیں۔ یہ دماغی نیورونز کی تحریک میں ضرور ابھرتا ہے، مگر ساتھ ہی ایک ایسا لطیف راز بھی ہے جسے صرف محسوس کیا جاتا ہے۔ اسی لیے صدیوں سے فلسفی اور سائنسدان اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ شعور کی اصل جگہ کہاں ہے۔
مادی خیال یہ کہتا ہے کہ شعور انسان کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک اور زاویہ بھی ہے۔ کوانٹم فزکس ہمیں بتاتی ہے کہ حقیقت کی تہہ کئی جہتوں سے بنی ہو سکتی ہے۔ کچھ نظریات یہ بھی کہتے ہیں کہ شعور شاید کسی کوانٹم فیلڈ میں موجود ہے، ایک ایسی لہر جو جسم کے فنا ہونے کے بعد بھی قائم رہ سکتی ہے۔ یہ نظریہ ثابت نہیں، مگر اتنا گہرا ضرور ہے کہ انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
انسانی ثقافت بھی شعور کی گونج ہے۔ انسان ختم ہو جائیں تو بھی ان کی تحریریں، یادگاریں اور عمارتیں کچھ عرصے تک یہ بتاتی رہیں گی کہ یہاں کبھی ایسے لوگ بستے تھے جو نہ صرف جیتے تھے بلکہ سوچتے بھی تھے۔ یہ زندہ شعور نہیں ہوگا، مگر اس کی بازگشت ضرور باقی رہے گی۔ جیسے کسی مندر میں بجنے والی آخری گھنٹی کی آواز جو دیر تک ہوا میں ٹھہری رہتی ہے۔
فلسفیوں نے شعور کی تشریح مختلف زاویوں سے کی ہے۔ کانٹ نے اسے اخلاقی قانون کی بنیاد کہا۔ ہائیڈیگر کے نزدیک شعور اپنے ہونے کی آگہی ہے۔ ابن عربی نے اسے وحدتِ کائنات کا عکس سمجھا، اور نطشے نے شعور کو تخلیقی قوت کا شعلہ کہا جو انسان کو نئی قدروں کی طرف دھکیلتا ہے۔
سائنس بھی اس مکالمے سے الگ نہیں۔ نیورو سائنس شعور کو دماغ کے پیچیدہ نیٹ ورک کا نتیجہ سمجھتی ہے، جبکہ کوانٹم نظریات یہ امکان کھلا رکھتے ہیں کہ شعور شاید کسی پوشیدہ توانائی کی صورت ہو جو کائنات کی گہرائیوں میں رواں ہے۔
آخر میں سوال وہی رہ جاتا ہے۔ اگر انسان ختم ہو جائیں تو کیا شعور کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اگر شعور صرف انسانی تحفہ ہے تو یہ انسان کے ساتھ ہی مٹ جائے گا۔ لیکن اگر شعور کائنات کا راز ہے تو یہ انسان کے بغیر بھی کسی نہ کسی صورت میں زندہ رہے گا۔ شاید روشنی کی صورت میں۔ شاید کسی خاموش ارتعاش میں۔ شاید کسی مستقبل کی مخلوق کی آنکھ میں بیدار ہو کر۔
مولانا روم کا ایک مصرعہ اس تحقیق کا خلاصہ ہے کہ تو میرے اندر ہے اور میں تیرے اندر۔ شاید انسان اور کائنات کے درمیان یہی پوشیدہ رشتہ ہے جو فنا کو بھی قبول نہیں کرتا۔ انسان لمحاتی وجود ہے مگر یہی لمحہ کائنات کو معنی دیتا ہے۔ اور یہی شعور کی اصل عظمت ہے کہ وہ خاموشی کو سوال بنا دیتا ہے اور سوال کو روشنی۔

ندیم فاروقی




















تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

زندگی کی واپسی - ایک بات ذاتی تجربہ

پرانے وقتوں کے علاج سے آج کے مہنگے علاج تک — کیا بدلا اور کیا ویسا ہی رہا؟

سوشل میڈیا یونیورسٹی — جہاں سب پروفیسر ہیں