ایلن مسک کا ٹیکنلوجیکل کمیونزم
ایلن مسک کا ٹیکنالوجیکل کمیونزم
ایلن مسک کا نام جب بھی لیا جاتا ہے، ذہن فوراً خلائی جہاز، برقی گاڑیاں یا مصنوعی ذہانت کی طرف چلا جاتا ہے، مگر ان کی شخصیت کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جو کم ہی زیر بحث آتا ہے۔ وہ کبھی کبھار ٹیکنالوجی کے مستقبل کے بارے میں چونکا دینے والے بیانات بھی دیتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک ایسے ممکنہ معاشی اور سماجی نظام کی بات کی ہے ۔ جہاں انسانی محنت کی ضرورت کم سے کم ہو جائے گی اور مشینیں زیادہ تر کام سنبھال لیں گے۔ ان کے بقول ائندہ دس سے بیس سالوں میں کرنسی کی ضرورت اور استعمال ختم ہو جائیگی ۔ انسانوں کے لئے تمام کام اے ائی بیسڈ روبوٹک مشینیں کریں گی۔ مسک کے مطابق انسان اس وقت ایک ایسے دور کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں بنیادی ضرورتوں کے لیے درکار محنت کم سے کم ہوتی جا ئیگی۔ اور اس طرح انسانوں کو کام کرنے کی لوڈ سے ازادی مل جائیگی۔ ایسے میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مشینیں ہماری نوکریاں لے لیں گی تو ہم کیا کریں گے۔ مسک کا جواب بڑا سادہ ہے: انسان کو پھر وہ کرنا پڑے گا جو وہ اصل میں کرنا چاہتا ہے۔ یعنی تخلیق، تحقیق، علم، سفر، فن، اور وہ تمام سرگرمیاں جو مادی دباؤ سے آزاد ہو کر کی جا سکیں۔ لیکن اس منظرنامے تک پہنچنے کے لیے دنیا کو نئے معاشی اصولوں کی ضرورت پڑے گی، کیونکہ آج کے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی انسانی محنت کے تبادلے پر کھڑی ہے۔ مسک کے “ٹیکنالوجیکل کمیونزم” کا بنیادی خیال یہ ہے کہ جب ٹیکنالوجی محنت کا بڑا حصہ سنبھال لے گی تو دولت کی تقسیم کا پرانا تصور قابلِ عمل نہیں رہے گا۔ یہ ایک بالکل نیا ماڈل ہے جو نہ خالص سوشلسٹ ہے اور نہ مکمل سرمایہ دارانہ ہے۔ بلکہ یہ نظام اس امکان کی بات کرتا ہے کہ ہر شخص کو بنیادی سہولتیں، صحت، علم اور رہائش تک رسائی محض انسان ہونے کی بنیاد پر ملے، نہ کہ کام کرنے کی صلاحیت کے بدلے میں۔
اس کے قریب ترین موجودہ تصور کو یونیورسل بیسک انکم کہا جاتا ہے، جسے دنیا کے کئی ممالک آزما بھی رہے ہیں۔ مگر مسک کے مطابق مستقبل کا بیسک انکم مصنوعی ذہانت کی کمائی سے پیدا ہوگا۔ انسان کی ٹیکس کیآمدنی سے نہیں۔ یہ خیال سننے میں جتنا خوبصورت لگتا ہے، اس کے ساتھ اتنے ہی سنگین سوالات بھی اٹھتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ مصنوعی ذہانت کی کمائی کس کے پاس جائے گی۔ اگر کمپنیوں کے پاس رہے گی تو وہ کمپنیاں نئی سپر پاورز بن جائیں گی۔ اگر حکومت کے پاس آئے گی تو ریاستیں اتنی مضبوط ہو جائیں گی کہ فرد کی آزادیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اور اگر اس کمائی کو عالمی سطح پر بانٹنے کی کوشش کی جائے تو سوال اٹھے گا کہ تقسیم کا معیار کیا ہو۔ دنیا میں پہلے ہی امیر اور غریب ممالک کا فرق بہت گہرا ہے، تو کیا ٹیکنالوجی اس فرق کو کم کرے گی یا مزید بڑھائے گی۔ مسک خود بھی مانتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت اور آٹومیشن اس وقت معاشروں کو دو حصوں میں بانٹ رہے ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو مشینوں کے مالک ہوں گے اور وہ لوگ جو صرف صارف ہوں گے۔ اس تفاوت کو کم کیے بغیر ٹیکنالوجی کا خوشحال مستقبل ممکن نہیں۔ اس کے باوجود مسک کہانی کے کچھ روشن پہلو بھی ہیں۔ ٹیکنالوجی نے ہمیشہ انسانی زندگی کو بہتر بنایا ہے، چاہے ابتدا میں خوف اور بے یقینی رہی ہو۔ انجن نے گھوڑوں کی ضرورت ختم کی مگر اس کے ساتھ نئے روزگار بھی پیدا کیے۔ کمپیوٹر نے ٹائپنگ پول ختم کیا مگر آئی ٹی انڈسٹری پیدا کر دی۔ مصنوعی ذہانت بھی نوکریاں ختم کرے گی مگر اس کے ساتھ نئی صنعتیں بھی لائے گی، البتہ ان صنعتوں کی تعداد اور وسعت پر آج یقین سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسک بار بار دنیا کو خبردار کرتے ہیں کہ اس تبدیلی کے لیے پلاننگ ضروری ہے، ورنہ معاشرتی بے چینی اور معاشی عدم توازن بڑھ جائے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسک خود بھی اس نظام کے معماروں میں شامل ہیں۔ وہ ٹیسلا، اسپیس ایکس، نیورالنک اور ایکس اے آئی کے ذریعے دنیا کو تیز ترین خودکار نظاموں کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ان کی کمپنیوں کا مقصد انسان کو مشقت سے آزاد کرنا، خلاء تک رسائی آسان بنانا اور ذہنی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔ مگر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب یہ تمام طاقت ایک ہی فرد یا چند بڑے گروپس کے پاس ہو تو کیا یہ دنیا کے لیے مثبت ہوگا۔ مسک اکثر اپنی باتوں میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ٹیکنالوجی کو سب تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ مگر تنقید نگاروں کے مطابق حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ٹیکنالوجی پر دنیا کی سب سے زیادہ گرفت انہی چند کمپنیوں کی ہے جو مسلسل بڑی ہوتی جا رہی ہیں ۔ حتیٰ کہ کچھ امیر حکومتیں بھی ان کی رفتار کے ساتھ نہیں دوڑ سکتیں۔
ٹیکنالوجیکل کمیونزم کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ اگر مصنوعی ذہانت انسانوں کا کام سنبھال لے گی تو انسان کی شناخت کس چیز سے قائم رہے گی۔ صدیوں سے انسان کی پہچان اس کے کام، ہنر اور محنت سے منسوب رہی ہے۔ اگر محنت کا مرکز تبدیل ہو جائے تو انسان خود کی کیسے تعریف کرے گا۔ کیا صرف تفریح اور فن انسان کو مقصد دے سکتے ہیں۔ کیا معاشرے اس ذہنی تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔ اور سب سے اہم سوال یہ کہ آیا انسان ٹیکنالوجی کے ساتھ ایک ہم شریک وجود کے طور پر جی سکے گا یا اسے مسلسل خوف رہے گا کہ مشین اس کی جگہ لے لے گی۔ مسک کے مطابق ٹیکنالوجی انسان کو اس قابل بنا دے گی کہ وہ کام کو ایک مشغلے کے طور پر لے۔ یعنی کام کرنا اختیاری ہوگا۔ اس سے ایک ایسی دنیا کا تصور ابھرتا ہے جہاں انسان مادی ضرورتوں کے دباؤ سے آزاد ہو کر اپنی اصل صلاحیتیں دریافت کر سکے۔ لیکن اس خواب تک پہنچنے کے لیے عالمی سطح پر قوانین، اخلاقی اصول اور ٹیکنالوجی کی غیر مرکزیت ناگزیر ہے۔ یہ عمل اگر غیر منصوبہ بندی کے ساتھ جاری رہا تو یہی ٹیکنالوجی بحران، بے روزگاری اور طاقت کے ارتکاز کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ مسک دنیا کو مستقبل کی طرف دیکھنے کا نیا زاویہ دیتا ہے۔ یہ تصور نہ تو سرمایہ دارانہ ہے، نہ سوشلسٹ اور نہ ہی کمیونسٹ، بلکہ ایک ایسا ماڈل ہے جس کی بنیاد مشینوں کی محنت اور انسان کی تخلیقی آزادی پر ہے۔ اس وقت دنیا معاشی، سماجی اور ٹیکنالوجیکل تبدیلیوں کے نازک مرحلے سے گزر رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے کردار نے انسان کو پہلی بار مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی شناخت، اپنے کام اور اپنی معاشرتی ساخت پر ازسرنو غور کرے۔ شاید یہی وہ لمحہ ہے جسے مسک مستقبل کا سنگ میل سمجھتے ہیں۔ دنیا مسک کے خیالات سے اتفاق کرے یا اختلاف، ایک حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ ٹیکنالوجی اب صرف سہولت نہیں رہی، یہ انسان کے مستقبل کا بنیادی پیٹرن تشکیل دے رہی ہے۔ آنے والے برسوں میں یہ طے ہوگا کہ ٹیکنالوجی انسان کو آزاد کرتی ہے یا مزید جکڑ لیتی ہے۔ لیکن اگر مسک کا خواب حقیقت بنتا ہے تو شاید انسان پہلی بار ایسے معاشرے میں داخل ہوگا جہاں محنت مشین کرے گی اور انسان علم و فکر کے ساتھ جیتا ہوا دکھائی دے گا۔
ندیم فاروقی

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں