صدر ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ


 صدر ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ

غزہ کی زمین اس وقت دنیا کے سب سے بڑے انسانی المیے کا استعارہ بن چکی ہے۔ مہینوں سے جاری بمباری، لاشوں کے ڈھیر، معصوم بچوں کی چیخیں، بھوک سے بلکتے خاندان اور ملبے میں دبے خواب سب کچھ ہمارے سامنے ہیں۔ اسی پس منظر میں  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک امن منصوبہ پیش کیا ہے، جسے انہوں نے "جنگ کے بعد کی صبح" کا نام دیاہے۔  منصوبہ بظاہر بیس نکات پر مشتمل ہے اور امن کی طرف ایک قدم دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب اس پر باریک نگاہ ڈالی جاتی ہے تو کئی ایسے سوال ابھرتے ہیں جو اس کے خلوص اور عملیت دونوں پر سایہ ڈالتے ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ منصوبہ واقعی امن کا ضامن ہے؟ یا یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں کمزور کو مزید کمزور کرنے کی تیاری کی گئی ہے؟
منصوبے کی بنیادی جھلک
 صدر ٹرمپ کے منصوبے کی شقیں پہلی نظر میں ایک امن پسند خاکہ معلوم ہوتی ہیں۔
جنگ بندی اس وقت ہوگی جب "دونوں فریق" راضی ہوں۔
اسرائیل کے منصوبہ قبول کرنے کے 72 گھنٹے بعد تمام یرغمالیوں (زندہ یا مردہ) کی واپسی ہوگی۔
قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا۔ 250 عمر قید کے قیدی، 1700 فلسطینی باشندے، خواتین اور بچے۔ ہر مردہ اسرائیلی یرغمالی کے بدلے 15 فلسطینی لاشیں واپس کی جائیں گی۔
حماس کے جنگجو اگر ہتھیار ڈال کر پرامن زندگی گزارنے کا وعدہ کریں تو انہیں عام معافی دی جائے گی۔
غزہ کی حکمرانی ایک عبوری فلسطینی کمیٹی کو دی جائے گی۔ لیکن اس میں حماس کو کوئی کردار نہیں ہوگا۔
امداد کی تقسیم اقوام متحدہ اور دیگر غیر جانبدار اداروں کی نگرانی میں ہوگی۔
منصوبے کی مجموعی نگرانی ایک بین الاقوامی ادارہ کرے گا جس کی قیادت خود  صدر ٹرمپ کریں گے۔
یہ سب پڑھنے میں تو امن کی باتیں لگتی ہیں۔ لیکن جب ان شقوں کے اندر جھانکا جائے تو سوالات کا ایک سلسلہ جنم لیتا ہے۔
"دونوں فریق"  مگر دوسرا فریق کون؟
منصوبے کی پہلی شرط ہے کہ "اگر دونوں فریق راضی ہوں۔" پہلا فریق تو سب کے سامنے ہے اور وہ ہے  اسرائیل۔ لیکن دوسرا فریق کون ہے؟
کیا یہ حماس ہے؟ منصوبے میں حماس کا ذکر صرف اس حد تک ہے کہ اسے حکومت سے الگ کر دیا جائے۔ کیا یہ غزہ کے عوام ہیں؟ مگر ان کی نمائندہ کمیٹی ابھی وجود میں نہیں آئی۔ یا پھر عرب ممالک ہیں؟ وہ ثالث تو ہو سکتے ہیں، لیکن فریق نہیں۔
یہ ابہام منصوبے کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ امن اگر اصل فریقین کی رضامندی کے بغیر ہو تو وہ امن نہیں رہتا، بلکہ طاقتور کی شرائط اور کمزور کی خاموشی کا دوسرا نام بن جاتا ہے۔
حماس کا ردعمل 
حماس نے اس منصوبے کو فوری طور پر "اسرائیل نواز" قرار دیا۔ ان کے لیے یہ نکات ناقابلِ قبول ہیں:
غزہ کی حکمرانی سے مکمل اخراج۔
عسکری ڈھانچے اور سرنگوں کی تباہی۔
اور سیاسی حیثیت کا خاتمہ۔
یہ سب وہ ستون ہیں جن پر حماس کی طاقت کھڑی ہے۔ اگر وہ مان جائیں تو اپنی سیاسی اور عسکری بقا سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اگر نہ مانیں تو دنیا انہیں امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دے گی۔
یوں یہ منصوبہ حماس کو ایسی پوزیشن میں کھڑا کرتا ہے جہاں خاموشی بھی جرم ہے اور مزاحمت بھی۔
دباؤ اور سفارت کاری
اس منصوبے کو کئی بڑے ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ فرانس، جرمنی، مصر، سعودی عرب، قطر، ترکی، انڈونیشیا اور پاکستان نے اس کی حمایت کی ہے۔ یہ حمایت بظاہر امن کے نام پر ہے، لیکن اس کے پیچھے سفارتی دباؤ صاف جھلکتا ہے۔ مقصد ہے کہ حماس کو کسی نہ کسی طرح مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس دباؤ سے حقیقی امن جنم لے گا؟ یا صرف ایک ایسا معاہدہ وجود میں آئے گا جو طاقتور کو مطمئن کرے اور کمزور کو مزید مجبور بنا دے؟ کیا امن صرف وہ ہے جو طاقتور لکھ دے، یا وہ بھی ہے جو کمزور کو سن کر بنایا جائے؟
پاکستان کی حمایت ، اصول یا مصلحت؟
پاکستان نے اس منصوبے کی حمایت کر کے کہا کہ یہ "خطے میں امن کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔" لیکن اس بیان نے عوامی سطح پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
عوام نے سوشل میڈیا پر سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان نے فلسطینی عوام کی اصل نمائندگی کو نظرانداز کر دیا ہے؟
اپوزیشن اور آزاد تجزیہ کاروں نے حکومت پر تنقید کی کہ یہ منصوبہ نہ تو دو ریاستی حل کو واضح کرتا ہے اور نہ ہی فلسطینی قیادت کو شامل کرتا ہے۔
پاکستان ہمیشہ فلسطینی خودمختاری اور دو ریاستی حل کا حامی رہا ہے۔ ایسے میں اس منصوبے کی غیر مشروط حمایت کو کئی حلقے اصولی مؤقف سے انحراف قرار دے رہے ہیں۔
یہ سوالات محض سفارت کاری کے نہیں، ضمیر کے سوالات ہیں۔
فلسطینی ریاست خواب یا تاخیر؟
منصوبے میں فلسطینی ریاست کا ذکر صرف ایک "امکان" کے طور پر کیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ
"جب فلسطینی اتھارٹی اصلاحات مکمل کرے گی، تو ریاستی حیثیت پر غور کیا جائے گا۔"
یہ جملہ ایک وعدہ کم اور ایک تاخیر زیادہ لگتا ہے۔ فلسطینی عوام دہائیوں سے ریاست کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اگر اس خواب کو صرف وعدوں کے دھاگے میں باندھ دیا جائے تو یہ انصاف نہیں بلکہ ایک نئی تاخیر ہے۔
ریاست محض وعدوں سے نہیں بنتی، بلکہ اختیار، نمائندگی اور خودمختاری سے بنتی ہے۔
اخلاقی سوالات 
اس منصوبے کے ساتھ کئی اخلاقی سوال جڑے ہیں۔
کیا امن صرف بندوقوں کی خاموشی ہے؟
کیا امن وہ ہے جس میں کمزور کی آواز شامل نہ ہو؟
کیا امن وہ ہے جو طاقتور کی شرائط پر تھوپا جائے؟
اگر امن کا مطلب صرف خاموشی ہے تو یہ امن نہیں، بلکہ اجنبیت ہے۔ امن وہ ہے جس میں سب کی آواز سنی جائے، سب کو عزت دی جائے اور سب کو اختیار ملے۔
ضمیر کی گواہی
صدر ٹرمپ کا منصوبہ ایک سفارتی دستاویز ضرور ہے، مگر اس میں انسانی پیچیدگی، سیاسی حقیقت اور اخلاقی گہرائی کو جگہ نہیں دی گئی۔ اگر امن واقعی مطلوب ہے تو اس کےلئے چند بنیادی اقدامات ضروری ہیں۔
حماس کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا۔
فلسطینی ریاست کو واضح طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔
غزہ کے عوام کو صرف امداد نہیں بلکہ اختیار دینا ہوگا۔
ان کے بغیر کوئی بھی امن عارضی ہوگا
۔ اور یہ معاہدہ تاریخ میں ایک اور "بیدخلی کا معاہدہ" کہلائے گا۔
امن کا مطلب صرف جنگ کا ختم ہونا نہیں۔ امن کا مطلب ہے انصاف کا قائم ہونا۔ اگر انصاف نہ ہو تو جنگ کے بعد کی صبح بھی اندھیری رہتی ہے۔

ندیم احمد فاروقی

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

پرانے وقتوں کے علاج سے آج کے مہنگے علاج تک — کیا بدلا اور کیا ویسا ہی رہا؟

سوشل میڈیا یونیورسٹی — جہاں سب پروفیسر ہیں

مووائیل غار رومانیہ میں 50 لاکھ سالوں سے بند زندگی کی بازگشت