مووائیل غار رومانیہ میں 50 لاکھ سالوں سے بند زندگی کی بازگشت
مووائل غار رومانیہ میں موجود زندگی جو 50 لاکھ سالوں سے غار میں پنپ رہی پے کے بارے میں میری آزاد نظم۔
زندگی — ایک بازگشت
نہ ابتدا کی صدا،
نہ انتہا کا نقش،
بس لمحوں کی لَو میں
جلتی ہوئی ایک گُم نام شمع،
جو نہ بجھتی ہے،
نہ مکمل روشن ہوتی ہے۔
کبھی خلیے کی صورت میں،
کبھی خیال کی چیخ میں،
کبھی آنکھ کے بغیر دیکھتی،
کبھی روشنی میں اندھی۔
کبھی زہر میں سانس لیتی،
کبھی اندھیرے میں رنگ کھو دیتی،
کبھی سوال بن کر،
اور جواب سے انکار کرتی۔
زندگی—
نہ صرف جینے کا نام،
بلکہ مرنے سے پہلے
خود کو پہچاننے کی ضد۔
ایک ضد جو وقت سے لڑتی ہے،
جسم سے نکلتی ہے،
اور شعور کی دہلیز پر جا بیٹھتی ہے۔
وہ جو روشنی کے بغیر زندہ ہے،
وہ جو آنکھوں کے بغیر دیکھتا ہے،
وہ جو آواز کے بغیر بولتا ہے،
وہی زندگی ہے—
جو ہر قید سے آزاد،
مگر ہر لمحے قید میں۔
نہ وقت کی قید،
نہ جسم کی حد،
بس ایک سفر،
جو ہر لمحہ خود کو
نئے قالب میں ڈھالتا ہے۔
کبھی مٹی،
کبھی آگ،
کبھی پانی،
کبھی خاموشی۔
زندگی،
تم افسانہ نہیں،
تم وہ سچ ہو
جو ہر جھوٹ کے پیچھے چھپ کر بھی
اپنا وجود برقرار رکھتی ہو۔
تم وہ راز ہو
جو ہر دریافت کے بعد
اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔
تم وہ بازگشت ہو
جو غاروں میں گونجتی ہے،
اور دلوں میں ٹھہر جاتی ہے۔
تم وہ سوال ہو
جو کبھی مکمل نہیں ہوتا،
اور وہ جواب
جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
اور کبھی—
تم مووائل غار کی مخلوق بن جاتی ہو،
پچاس لاکھ سالوں سے اندھیرے میں قید،
مگر زندہ،
مگر مکمل،
مگر حیران کن۔
تم وہ ہو جو روشنی کے بغیر
زندگی کی نئی تعریف لکھتی ہے۔
---
نظم کا پس منظر
یہ نظم اُس لمحے کی تخلیق ہے جب زندگی کو صرف حیاتیاتی مظہر نہیں بلکہ ایک وجودی سوال کے طور پر دیکھا گیا۔
اس نظم کی روح مووائل غار (Movile Cave) سے پھوٹی ہے—رومانیہ کے جنوب مشرق میں واقع ایک غار، جو بحیرہ اسود کے قریب ہے، اور جو پچاس لاکھ سالوں سے زمین کے باقی ماحول سے کٹی ہوئی ہے۔
اس غار میں نہ روشنی ہے، نہ تازہ ہوا، نہ عام جانداروں کی موجودگی۔
مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں زندگی موجود ہے—ایسی زندگی جو زہریلی گیسوں، اندھیرے، اور تنہائی میں بھی ارتقاء کر چکی ہے۔
یہاں کے کیمو سنتھیٹک بیکٹیریا اور سفید رنگت والے کیڑے مکوڑے اس بات کا ثبوت ہیں کہ زندگی صرف روشنی یا سہولت کی محتاج نہیں، بلکہ اندھیرے میں بھی اپنا راستہ بنا سکتی ہے۔
ان جانداروں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کے جسموں میں آنکھیں نہیں ہوتیں۔
نہ اس لیے کہ وہ ناقص ہیں، بلکہ اس لیے کہ انہیں آنکھوں کی ضرورت ہی نہیں۔
جب کوئی مخلوق ہمیشہ اندھیرے میں رہتی ہے، تو آنکھیں بیکار ہو جاتی ہیں—کیونکہ آنکھیں روشنی کے بغیر دیکھنے سے قاصر ہوتی ہیں۔
وقت کے ساتھ، ارتقاء نے ان آنکھوں کو ختم کر دیا، اور زندگی نے دیکھنے کے بجائے محسوس کرنا سیکھ لیا۔
یہ نظم اسی غار کی علامت کو لے کر زندگی کی عمومی حالت کو بیان کرتی ہے—کہ وہ ہر قید، ہر اندھیرے، ہر زہر، اور ہر خاموشی میں بھی سانس لینا سیکھ لیتی ہے۔
یہ نظم زندگی کو ایک بازگشت کے طور پر دیکھتی ہے—جو غاروں میں گونجتی ہے، دلوں میں ٹھہرتی ہے، اور ہر سوال کے پیچھے چھپی ہوتی ہے۔
رومانیہ کی مووائل غار اس نظم میں صرف ایک سائنسی حوالہ نہیں، بلکہ ایک علامت ہے—اس بات کی کہ زندگی کبھی مکمل طور پر بند نہیں ہوتی، بلکہ وہ ہر بندش میں ایک نئی راہ تلاش کرتی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں