امریکہ-اسرائیل اتحاد اور عرب دنیا کی مجبوریوں کا کھیل

 امریکہ-اسرائیل اتحاد اور عرب دنیا کی مجبوریوں کا کھیل

مشرق وسطیٰ کا جغرافیہ نہ صرف تیل کی دولت سے مالا مال ہے بلکہ یہ دنیا کے بڑے اسٹریٹجک تنازعات کا مرکز بھی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ خطہ عالمی سیاست کا ایسا اسٹیج بن گیا جہاں امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کے سائے میں اسرائیل اور عرب دنیا کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ آج بھی مشرق وسطیٰ کی بیشتر پالیسیاں ان طاقتوں کے زیرِاثر ہیں جنہوں نے اس خطے کو اپنی اسٹریٹجک بساط کا حصہ بنا رکھا ہے۔
اسرائیل کا قیام اور ابتدائی امریکی حمایت
1948 میں اسرائیل کا قیام ایک ایسا واقعہ تھا جس نے عالمی طاقتوں کے توازن کو بدل کر رکھ دیا۔ امریکہ نے اسرائیل کو قیام کے فوراً بعد تسلیم کیا اور جلد ہی اسے عسکری اور مالی امداد فراہم کرنا شروع کر دی۔ یہ امداد محض اخلاقی یا انسانی بنیادوں پر نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے ایک واضح اسٹریٹجک سوچ تھی: مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو ایک ایسا اتحادی درکار تھا جو خطے میں مغربی مفادات کا محافظ بن سکے۔
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات میں یہ اعتماد وقت کے ساتھ مزید گہرا ہوتا گیا۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد اسرائیل کی عسکری طاقت نے امریکہ کو متاثر کیا، اور یہ واضح ہو گیا کہ خطے میں امریکہ کا سب سے مضبوط اتحادی کوئی عرب ریاست نہیں بلکہ اسرائیل ہی ہے۔
عرب دنیا کی تقسیم اور داخلی کمزوریاں
اسرائیل کے قیام کے بعد عرب ریاستوں کا ردعمل شدید تھا، لیکن ان کی داخلی کمزوریاں اور باہمی اختلافات نے انہیں ایک متحدہ محاذ بنانے سے روک دیا۔ 1973 کی عرب-اسرائیل جنگ (یومِ کپور جنگ) اگرچہ شروع میں عرب دنیا کے لیے کامیابی کے آثار لے کر آئی، لیکن امریکہ کی بروقت مداخلت اور اسرائیل کی عسکری برتری نے جنگ کا نقشہ بدل دیا۔ اس جنگ نے عرب ممالک کو یہ حقیقت سمجھا دی کہ صرف فوجی طاقت سے اسرائیل کو شکست دینا ممکن نہیں۔
اسی پس منظر میں 1978 کا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا جس نے مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم کر دیے۔ یہ معاہدہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی کامیابی تھا، لیکن عرب دنیا کے اتحاد کے لیے ایک زبردست دھچکا۔ عرب دنیا کی یہی تقسیم آج بھی خطے میں امریکہ اور اسرائیل کے لیے سازگار ماحول پیدا کرتی ہے۔
امریکہ کے فوجی اڈے اور تیل کی سیاست
امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں دلچسپی صرف اسرائیل کے تحفظ تک محدود نہیں رہی۔ تیل کی عالمی معیشت میں اہمیت نے امریکہ کو خطے میں عسکری موجودگی بڑھانے پر مجبور کیا۔ آج مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک، خصوصاً قطر، بحرین، کویت، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات میں امریکی فوجی اڈے قائم ہیں۔ یہ اڈے نہ صرف امریکہ کی عسکری حکمت عملی کا حصہ ہیں بلکہ خطے کی سیاست پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔
یہ صورتحال عرب ممالک کو ایک ایسے جغرافیائی جال میں قید کر دیتی ہے جہاں وہ بظاہر خودمختار ہیں لیکن ان کی دفاعی پالیسیوں پر مکمل کنٹرول خود ان کے پاس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے حالیہ جارحانہ اقدامات کے باوجود بہت سے عرب ممالک امریکہ کے ساتھ دفاعی اور تجارتی تعلقات برقرار رکھنے پر مجبور ہیں۔
ابراہام معاہدہ: تعلقات کا نیا باب
2020 میں دستخط ہونے والے ابراہام معاہدے نے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک نیا باب کھولا۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان، اور مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا، جو کہ چند دہائیاں پہلے تک ناقابلِ تصور بات تھی۔ اس معاہدے نے عرب دنیا میں اسرائیل کے لیے راہیں ہموار کر دیں اور یہ پیغام دیا کہ خطے میں طاقت کا نیا توازن پیدا ہو چکا ہے۔
یہ تبدیلی صرف اسرائیل کی عسکری طاقت کا نتیجہ نہیں بلکہ امریکہ کی سفارتی حکمت عملی کا بھی مظہر ہے۔ واشنگٹن نے واضح کر دیا کہ عرب ریاستیں اگر عالمی معیشت میں اپنا مقام قائم رکھنا چاہتی ہیں تو انہیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے ہوں گے۔
عرب دنیا کی مجبوریوں کا پس منظر
مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستیں اپنی معاشی بقا کے لیے مغربی دنیا کی منڈیوں اور سرمایہ کاری پر انحصار کرتی ہیں۔ تیل کی پیداوار اور برآمدات نے اگرچہ ان ممالک کو دولت مند بنا دیا، مگر صنعتی ترقی اور عسکری خودمختاری کے فقدان نے انہیں عالمی طاقتوں پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا۔
امریکہ اور اسرائیل کی شراکت داری نے اس حقیقت کو اور نمایاں کر دیا کہ مشرق وسطیٰ میں طاقتور ہونا صرف عسکری قوت کا نام نہیں بلکہ عالمی نظام کا حصہ بننے کی صلاحیت بھی ضروری ہے۔ اس خلا کو اسرائیل نے پر کیا، جبکہ عرب ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی اختلافات میں الجھی رہیں۔
حالیہ صورتحال اور نئے خطرات
آج مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور اسرائیل کی عسکری شراکت داری پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ اسرائیل نے حالیہ برسوں میں نہ صرف فلسطینی علاقوں بلکہ شام، لبنان، اور دیگر عرب ممالک میں عسکری کارروائیاں کی ہیں، اور دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کارروائیوں میں امریکہ کی براہ راست مخالفت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اس حقیقت نے خطے کے عوام میں غم و غصہ بڑھا دیا ہے، لیکن سیاسی قیادت اب بھی واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔
یہ تمام عوامل اس تاثر کو مضبوط کرتے ہیں کہ عرب دنیا اپنی خودمختاری کی جنگ صرف سیاسی نعروں میں لڑ رہی ہے۔ حقیقی میدان میں طاقت کا توازن اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ہاتھ میں ہے۔
نتیجہ: ایک پیچیدہ بساط
مشرق وسطیٰ میں امریکہ-اسرائیل اتحاد اور عرب دنیا کی مجبوریوں کا کھیل صرف آج کا قصہ نہیں بلکہ دہائیوں پر پھیلا ہوا ایک تاریخی تسلسل ہے۔ تیل کی سیاست، عسکری طاقت، اور عالمی سفارت کاری نے مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں عرب دنیا کے پاس اپنی پالیسیوں کے لیے گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا عرب ریاستیں کبھی اپنی پالیسیوں کو آزادانہ طور پر تشکیل دے پائیں گی، یا یہ خطہ ہمیشہ بڑی طاقتوں کے شطرنج کے مہرے بن کر رہے گا؟

ندیم احمد فاروقی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مووائیل غار رومانیہ میں 50 لاکھ سالوں سے بند زندگی کی بازگشت

"مرد اور عورت کی دوستی " حقیقت یا فریب

تیراہ کاسانحہ: امن کی تلاش یا لا متناہی جںگ