امریکی بیانیہ اور خطے کا بدلتا منظرنامہ: عرب دنیا، اسرائیل، اور ایشیائی طاقتوں کی نئی صف بندی
امریکی بیانیہ اور خطے کا بدلتا منظرنامہ: عرب دنیا، اسرائیل، اور ایشیائی طاقتوں کی نئی صف بندی
انیسویں اور بیسویں صدی کا بیشتر حصہ دنیا کے لیے نوآبادیاتی طاقتوں کے زیر سایہ گزرا۔ برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی قوتیں نہ صرف وسائل کی لوٹ مار میں مصروف رہیں بلکہ سرحدوں کو بھی اس انداز سے تشکیل دیا کہ آنے والی نسلوں تک تنازعات کا سلسلہ قائم رہے۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں بیسویں صدی کے وسط میں مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا کی جغرافیائی تقسیم ہوئی۔
آج ہم 1940 اور 1950 کی دہائیوں کے اسی منظرنامے کے عکس کو دوبارہ ابھرتا دیکھ رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب پرانی نوآبادیاتی طاقتوں کی جگہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے لے لی ہے، جبکہ مشرق سے روس اور چین جیسی بڑی قوتیں بھی اس کھیل میں براہِ راست شریک ہیں۔
اسرائیل کا بڑھتا ہوا کردار
مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا کردار کسی راز کی طرح ابھرتا ہوا نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے۔ گزشتہ ہفتوں میں اسرائیل نے ایسے ممالک پر فضائی حملے کیے جن میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ یہ حملے بظاہر دفاعی نوعیت کے قرار دیے جا رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعات خطے کے طاقت کے توازن پر ایک نئے باب کا اشارہ ہیں۔
یہ سوال کہ ایک ایسا ملک جو امریکا کا قریبی اتحادی ہے، ایسے ممالک کو نشانہ کیوں بنائے جہاں امریکی موجودگی قائم ہے، عالمی تجزیہ نگاروں کو الجھا رہا ہے۔ جواب شاید یہی ہے کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں میں اب براہِ راست تصادم نہیں بلکہ "کنٹرولڈ انتشار" کا ایک نیا ماڈل جنم لے رہا ہے۔
عرب دنیا اور واشنگٹن کی دوہری حکمتِ عملی
امریکا اور عرب دنیا کے تعلقات ہمیشہ تیل، اسلحے اور سیاسی اثرورسوخ کے گرد گھومتے رہے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک ایک طرف امریکا کے بڑے تجارتی اور عسکری شراکت دار ہیں، تو دوسری طرف وہ چین اور روس کے ساتھ بھی بڑھتے تعلقات رکھتے ہیں۔ یہی دوہرا پن واشنگٹن کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
اس صورتحال نے امریکا کو یہ احساس دلایا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اب اس کے یکطرفہ اثرورسوخ کے تابع نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اسرائیل کو زیادہ خودمختاری دے کر ایک "پاور پراجیکٹ" کے طور پر استعمال کر رہا ہے، تاکہ خطے میں اپنی گرفت قائم رکھ سکے، حتیٰ کہ اس کے لیے محدود سطح کے تنازعات بھی پیدا کیے جائیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا ابھرتا ہوا تاثر
چین، روس، ایران، پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک کی شمولیت کے ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اب محض علاقائی تعاون کا پلیٹ فارم نہیں رہی بلکہ ایک جغرافیائی سیاسی چیلنج کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ حالیہ اجلاس، جس میں شمالی کوریا، چین اور روسی صدور نے فوجی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا، یہ پیغام دے رہا ہے کہ دنیا اب یک قطبی نظام کے بجائے کثیر قطبی سمت میں بڑھ رہی ہے۔
یہ منظرنامہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے تشویش ناک ہے۔ واشنگٹن جس خطے کو اپنی عسکری موجودگی کا گڑھ سمجھتا تھا، وہ اب چین کے اقتصادی منصوبوں (بیلٹ اینڈ روڈ) اور روس کی اسلحہ پالیسی کا میدان بن چکا ہے۔
پاکستان، خلیج اور خطے کی نئی بساط
پاکستان کے لیے یہ صورتحال ایک کڑی آزمائش ہے۔ ایک طرف چین کا سرمایہ کاری نیٹ ورک اور روس کی عسکری و تزویراتی حمایت ہے، تو دوسری طرف خلیجی ممالک اور امریکا کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اس حقیقت کو مزید پیچیدہ بناتی ہے کہ خطے میں کسی بھی تبدیلی کا پہلا اثر اس پر پڑتا ہے۔
خلیجی ممالک بھی اسی دوہری تلوار پر چل رہے ہیں: وہ ایک طرف امریکا کے سب سے بڑے اسلحہ خریدار ہیں، تو دوسری طرف چین کے ساتھ توانائی اور سرمایہ کاری کے بڑے منصوبوں پر دستخط کر رہے ہیں۔
ایک نیا عالمی منظرنامہ؟
مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا کی نئی صف بندی ہمیں بیسویں صدی کی تقسیم کی یاد دلاتی ہے، جب جنگِ عظیم دوم کے بعد سرحدوں کو جلدبازی میں کھینچا گیا تھا۔ اسرائیل کا قیام (1948)، کوریا کی تقسیم، بھارت-پاکستان کا وجود، اور مشرقی یورپ میں سرد جنگ کی لکیریں اسی دور کی پیداوار ہیں۔
آج ایک بار پھر تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، مگر اس بار کھیل زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس بار تیل اور اسلحے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل معیشت بھی اس کھیل کا حصہ ہیں۔ اسرائیل کے حالیہ حملے اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ خطے میں کشیدگی محض روایتی دشمنیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے نئے مفادات کے باعث بڑھ رہی ہے۔
دنیا تیزی سے ایک نئے عالمی نظام کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں طاقت کے مراکز بدل رہے ہیں۔ امریکا اب تنہا فیصلہ ساز قوت نہیں رہا، چین اور روس کی شراکت داری عالمی سیاست کے قواعد بدل رہی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا کردار ایک "ڈائنامک پاور پراکسی" کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، جو بیک وقت دوست اور حریف دونوں کے کردار ادا کر رہا ہے۔ خطے کے ممالک کو اب یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ عالمی سیاست کی بساط پر اگر وہ محتاط چال نہ چلیں تو وہ محض مہرے بن کر رہ جائیں گے۔
ندیم احمد فاروقی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں