مجغرافیہ کی لکیریں اور سامراجی سیاست

 جغرافیے کی لکیریں اور سامراجی وراثت

دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کے نقشے پر جو تبدیلیاں آئیں، وہ محض نئی ریاستوں کے قیام یا پرانی سلطنتوں کے زوال کی کہانی نہیں تھیں، بلکہ یہ سامراجی سیاست کے اس کھیل کا شاخسانہ تھیں جس نے نسلوں کی تقدیر طے کر دی۔ ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ وہ خطے تھے جہاں صدیوں پرانی تہذیبیں بستی تھیں، مگر عالمی طاقتوں نے قلم کے ایک ہی وار سے ان کی تاریخ اور معاشرت کو نئے سانچوں میں ڈھال دیا۔
برطانیہ اور فرانس جیسی نوآبادیاتی طاقتیں دوسری جنگ عظیم کے بعد عسکری اور معاشی لحاظ سے کمزور ہوچکی تھیں۔ لیکن کمزوری کے باوجود انہوں نے اپنے نوآبادیاتی علاقوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تقسیم کیا۔ سامراج کا بنیادی فلسفہ یہی تھا کہ ایسے نقشے بنائے جائیں جہاں طاقت کا توازن کبھی کسی ایک کے حق میں نہ جھکے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم ہو یا فلسطین میں اسرائیل کا قیام، ہر فیصلہ جلد بازی اور سیاسی مجبوریوں کے دباؤ میں ہوا۔
تقسیمِ ہند: ایک تاریخی مثال
1947 میں برصغیر کی تقسیم محض مذہبی بنیادوں پر نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے ایک بڑی اسٹریٹجک سوچ بھی کارفرما تھی۔ برطانیہ کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ خطے سے یکسر دستبردار ہوجائے۔ اس لیے تقسیم کے ذریعے ایک ایسا جغرافیہ بنایا گیا جس میں پاکستان کو ایک طرف روسی اثرورسوخ کے خلاف دیوار کے طور پر استعمال کیا جا سکے اور بھارت کو خطے میں مغربی مفادات کا ممکنہ اتحادی رکھا جا سکے۔
سرحدوں کے تعین میں عجلت کا عالم یہ تھا کہ ریڈکلف ایوارڈ تک آخری لمحے تک چھپا کر رکھا گیا، اور لاکھوں لوگ مہاجر بن گئے۔ یہ تقسیم نہ صرف لاکھوں جانیں لے گئی بلکہ جنوبی ایشیا کے سیاسی منظرنامے میں مستقل کشیدگی پیدا کر گئی۔
مشرق وسطیٰ: سامراجی نقشہ سازی
برصغیر کے بعد مشرق وسطیٰ وہ خطہ تھا جہاں سامراجی طاقتوں نے نئی سرحدیں کھینچ کر ایک نیا جغرافیہ تشکیل دیا۔ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا فیصلہ 1948 میں ہوا، لیکن اس کے بیج پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی بو دیے گئے تھے۔ برطانیہ نے 1917 میں بالفور اعلامیہ کے ذریعے یہ عندیہ دیا تھا کہ یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست قائم کی جائے گی۔ جنگ عظیم دوم میں یورپی یہودیوں پر مظالم کے بعد یہ فیصلہ بین الاقوامی حمایت کے ساتھ عملی شکل اختیار کر گیا۔
ساتھ ہی عراق، شام، لبنان، اور اردن جیسے ممالک بھی انہی معاہدات اور فیصلوں کے نتیجے میں وجود میں آئے، مگر ان کے سرحدی نقشے اس انداز میں کھینچے گئے کہ اندرونی اختلافات کبھی ختم نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ آج بھی فرقہ وارانہ، نسلی، اور سیاسی تنازعات کا گڑھ ہے۔
ڈی کولونائزیشن کی لہر
دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی سیاست میں ایک اور بڑی تبدیلی ڈی کولونائزیشن (نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ) کی شکل میں آئی۔ 1945 سے 1960 کے درمیان ایشیا اور افریقہ میں درجنوں نئی ریاستیں وجود میں آئیں، مگر ان میں سے اکثر اپنی آزادی کے باوجود مغربی اثرورسوخ سے مکمل طور پر آزاد نہ ہو سکیں۔
یہ ممالک بظاہر خودمختار تھے، لیکن ان کی معاشی پالیسیوں سے لے کر خارجہ تعلقات تک ہر سطح پر سابق سامراجی طاقتوں کا اثر قائم رہا۔ اس صورتحال نے ایک ایسا عالمی نظام پیدا کیا جہاں طاقت کے توازن کا پیمانہ مسلسل بڑی ریاستوں کے ہاتھ میں رہا۔
عالمی ادارے اور کاغذی آزادی
اقوامِ متحدہ نے بلاشبہ دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ادارے کی تشکیل بھی اسی عالمی نظام کے تحت ہوئی جہاں ویٹو پاور رکھنے والی بڑی طاقتیں اصل فیصلہ کن قوت ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ ہو یا کشمیر کا تنازعہ، ان مسائل کے حل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ عالمی ادارے اپنے قیام سے اب تک طاقتور ممالک کی سیاسی مرضی سے آزاد فیصلے کرنے کے قابل نہیں ہو سکے۔
نتیجہ: سرحدوں کی سیاست
دوسری جنگ عظیم کے بعد بننے والی یہ نئی سرحدیں دراصل سامراجی منصوبہ بندی کی وہ یادگار ہیں جو آج بھی دنیا میں تنازعات کی شکل میں زندہ ہیں۔ برصغیر کی تقسیم اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا قیام اس بات کی سب سے بڑی مثالیں ہیں کہ جغرافیہ محض زمین کے ٹکڑوں کا نام نہیں بلکہ طاقت کی سیاست کا ہتھیار بھی ہے۔
یہ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر اقوام اپنی سرحدوں اور خطوں کی تشکیل کے عمل میں خود مختاری نہ رکھیں تو آنے والی نسلوں کے لیے مسائل کا انبار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا کے نقشے پر کئی خطے ایسے ہیں جہاں سرحدوں سے زیادہ نفرت اور تنازعات کے خیمے نظر آتے ہیں۔

ندیم احمد فاروقی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مووائیل غار رومانیہ میں 50 لاکھ سالوں سے بند زندگی کی بازگشت

"مرد اور عورت کی دوستی " حقیقت یا فریب

تیراہ کاسانحہ: امن کی تلاش یا لا متناہی جںگ