سوچنے سے پہلے اجازت لیں۔
سوچنے سے پہلے اجازت لیں
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں تقریباً 40 لاکھ شہریوں کے فون اور دیگر ڈیجیٹل مواصلاتی ذرائع مانیٹر کیے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نگرانی کے لیے جدید آلات اور ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہیں، تاکہ ہر کال، ہر میسج، ہر سوشل میڈیا پوسٹ اور ہر آن لائن سرگرمی زیرِ نگرانی رہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ الات بیرون ملک سے کروڑوں ڈالرز کی ادائیگیاں کر کے خریدیں گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرضوں میں ڈوبے ہوئے ایک ملک کیلئے شہریوں کی جاسوسی کتنا ضروری عمل ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق، یہ عمل شہریوں کی پرائیویسی اور ذاتی آزادی پر گہرا اثر ڈال رہا ہے، اور روزمرہ زندگی کے ہر پہلو میں اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
اب تصور کریں کہ آپ اپنے فون پر چیٹ کر رہے ہیں، ایپس کے درمیان سوئچ کر رہے ہیں، اور ہر بار سوچتے ہیں کہ کہیں یہ خیال یا میسج ‘غیر منظور شدہ’ تو نہیں۔ ہر نوٹیفکیشن کی بیپ، ہر ایموجی، ہر پوسٹ، ریاست کی نظر میں ہے۔ یہ سنجیدہ حقیقت طنز کے زاویے سے اتنی absurd لگتی ہے کہ شہری خود بھی کبھی مسکرا دیتے ہیں۔ لیکن یہی مسکراہٹ بھی زیرِ نگرانی ہو سکتی ہے۔
شہری آزادی کا نیا انداز یہ ہے کہ آپ ہر سوچ، ہر خیال، ہر میسج، ہر تصویر اور ہر ہنسی کے لمحات کے لیے پہلے اجازت لیں۔ اور اگر کسی لمحے اجازت لینا بھول جائیں؟ تو بس، وہ لمحہ ریاستی نگرانی کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور آپ خود حیران رہ جاتے ہیں کہ کب اور کیسے ہر خیال ریاست کی نظر میں آ گیا۔
خواب بھی اب منظور شدہ ہیں۔ اگر کوئی خواب آئے جس میں آپ پرندے کی طرح پرواز کریں، یا آسمان کی وسعت محسوس کریں۔ تو وہ خواب بھی بغاوت میں شمار ہو جائے گا۔ ہر شہری اب سرکاری خواب دیکھے۔ جس میں ریاست کی تعریف، نگرانی کی برکت، اور خاموشی کی خوبصورتی شامل ہو۔ اور اگر خواب خود بخود آ جائے تو یہ قابل دست اندازی ریاست سمجھا جائے گا۔
ادبی محفلیں، شاعری اور تخلیقی اظہار بھی ریاست کے تابع ہوں۔ ہر نظم میں ریاست کا ذکر لازمی ہو، آزادی صرف اجازت کے ساتھ استعمال ہوگی۔ اور سچ کو ‘منظور شدہ حقیقت’ کہا جائے گا۔ اگر شاعر اپنی بات کہنے کی کوشش کرے ، تو فوراً ریاستی لائٹس اس کے خیال میں جھانک جائیں۔ اور وہ خود حیران رہ جائے کہ آخر کب اور کیسے اس کا خیال نگرانی میں آ گیا۔
جب شہری ہر لمحے ریاست کی چھپی ہوئی نظروں کو محسوس کریں جب وہ فون پر کسی دوست سے بات کر رہا ہوتا ہے۔ ئا سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ شیئر کر رہا ہوتا ہے۔ یا کسی چھوٹے مسئلے پر رائے دے رہا ہوتا ہے، اور اچانک یاد آتا ہے کہ شاید یہ خیال منظور شدہ نہیں۔ یہی وہ لمحے ہیں جب زندگی کی absurdities سب سے زیادہ نمایاں ہوتی ہیں اور شہری خود بھی مسکرا دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ مسکراہٹ بھی زیرِ نگرانی ہو سکتی ہے۔
یہ تمام روزمرہ منظر شہری کی زندگی کو ایک مزاحیہ مگر فکر انگیز تجربے میں بدل دیتا ہے۔ ہر چھوٹا سا خیال، ہر ایموجی، ہر پوسٹ، اور ہر ردعمل ریاست کی نظر میں ہے، اور شہری خود بھی سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ طنز اور مزاح کے بہترین مواقع پیدا کرتا ہے۔ شہری خود بھی ہنسنے لگتے ہیں، مگر یہ ہنسی بھی زیرِ نگرانی آ سکتی ہے۔
یہ مضمون ہمیں یاد دلاتا ہے کہ شہری زندگی میں مزاح، طنز اور شوخی بہت ضروری ہیں۔ ایمنسٹی کی رپورٹ ایک سنجیدہ حقیقت بتاتی ہے، مگر طنز ہمیں ہنسنے اور سوچنے کا موقع دیتا ہے: ہم واقعی آزاد ہیں، یا بس اتنے آزاد ہیں جتنی ریاست اجازت دیتی ہے؟
روزمرہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی absurdities، ہر منظور شدہ خیال، اور ہر سرکاری ہدایت میں مزاح تلاش کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اگر ہم ہنسنا اور سوچنا چھوڑ دیں، تو شاید ہم وہ شہری بن جائیں جو صرف دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، اور اجازت کے بغیر کچھ بھی محسوس نہیں کر سکتے۔
بس ایک نصیحت باقی رہ جاتی ہے:
"سوچنے سے پہلے اجازت لیں۔"
یہ مضمون کسی مخصوص حکومت یا ادارے پر الزام نہیں لگاتا، بلکہ طنز اور مزاح کے ذریعے یہ سوال اٹھاتا ہے: ہم واقعی آزاد ہیں، یا صرف اتنے آزاد ہیں جتنی ریاست اجازت دیتی ہے؟
ندیم احمد فاروقی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں