تیراہ کاسانحہ: امن کی تلاش یا لا متناہی جںگ
تیراہ کا سانحہ: امن کی تلاش یا لامتںاہی جنگ؟
22 ستمبر 2025 کی صبح خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں ایک ہولناک واقعہ پیش آیا جس میں 24 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ وفاقی حکومت اور سکیورٹی ذرائع اس واقعے کو شدت پسندوں کے زیرِ استعمال بارودی مواد کے پھٹنے سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ شدت پسندوں نے مقامی آبادی کی بیچ ایک مکان میں گولہ باردو ذخیرہ کیا تھا جس میں کسی وجہ سے دھماکہ ہوا۔ اور نتیجے میں نہ صرف شدت پسند بلکہ آس پاس کے مکانات بھی تباہ ہوئے۔ جس سے عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی۔ جبکہ مقامی باشندوں اور صوبائی نمائندوں کا دعویٰ ہے کہ یہ فضائی کارروائی تھی۔ اختلافِ بیانیہ جتنا بھی ہو، اس واقعے کی سب سے واضح تصویر وہی ہے جس میں عام شہری انتہائی قیمت ادا کر گئے۔
غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق 24 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اس واقعے پر علاقے کے عوام نے شدید غم و غصہ ظاہر کیا اور متاثرہ خاندانوں کے لیے معاوضے کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے معاوضے کا اعلان بھی کیا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا معاوضہ ان زخموں کا مداوا کر سکتا ہے جو بار بار کھلتے ہیں؟
یہ واقعہ محض ایک حادثہ یا ایک دن کی خبر نہیں۔ یہ اس بڑے زخم کی جھلک ہے جو خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں برسوں سے رس رہا ہے۔ تیراہ، باجوڑ، بنوں، میران شاہ، اورکزئی، ڈیرہ اسماعیل خان ، سوات ، دیر ، کرم ، مہمند الغرض صوبہ خیبر پختونخوا کے تمام قابل ذکر اضلاع ایک ہی کہانی سنا رہے ہیں: شورش، بے یقینی، اور عام شہریوں کی قربانیاں۔
تیراہ کا واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ شورش ختم نہیں ہوئی بلکہ بدلتی شکلوں میں اب بھی جاری ہے۔ فضائی حملہ ہو یا زمینی آپریشن، نتیجہ ایک ہے۔ انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور لوگوں کا اعتماد مزید کم ہوتا ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ اگر شدت پسند واقعی ختم ہو رہے ہیں تو پھر عام لوگ کیوں بار بار اس جنگ کی قیمت ادا کر رہے ہیں؟
تیراہ کی پہاڑیاں کبھی امن کی پہچان تھیں، مگر اب یہاں خوف اور سناٹے کا راج ہے۔ ایک طرف عسکریت پسند ہیں جو اپنی سوچ دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے بندوق کا سہارا لیتے ہیں، دوسری طرف ریاستی فورسز ہیں جو انہیں ختم کرنے کے لیے طاقت استعمال کرتی ہیں۔ اور بیچ میں وہ لوگ ہیں جو محض زندہ رہنا چاہتے ہیں۔
یہ المیہ صرف تیراہ تک محدود نہیں۔ باجوڑ میں کئی بار حملے اور جوابی کارروائیاں ہوئیں جن میں عام شہری جان سے گئے۔ بنوں اور میران شاہ میں فوجی آپریشن کا سلسلہ جاری رہا ہے، مگر اس دوران مقامی لوگوں کے روزمرہ کے معمولات برباد ہو گئے۔ اورکزئی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بار بار حملوں اور دھماکوں نے لوگوں کو خوف کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔
یہ سب علاقے ایک دوسرے سے جغرافیائی طور پر مختلف ہیں، مگر ان کی کہانی ایک جیسی ہے۔
اچانک ایک دھشت گرد حملہ ہوتا ہے، جس میں سیکورٹی فورسز اور عام لوگوں کی جانیں جاتی ہیں۔
سکیورٹی فورسز جوابی کارروائی کرتی ہیں۔
شدت پسند کچھ عرصہ کی خاموشی کے بعد پھر سرگرم ہو جاتے ہیں۔ اور عام لوگ اس جنگ کا ایندھن بنتے ہیں۔
ان واقعات کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کا اس لڑائی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ یہ کسان، مزدور، تاجر، بچے اور عورتیں ہیں جو یا تو غلط وقت پر غلط جگہ ہوتے ہیں یا پھر ان کا واحد جرم یہ ہوتا ہے کہ وہ شورش زدہ علاقے میں رہتے ہیں۔
معاشی نقصان اپنی جگہ مگر نفسیاتی دباؤ شاید سب سے بڑا زخم ہے۔ بچوں کے ذہن خوف سے بھرے ہیں، لوگ رات کو سکون کی نیند نہیں سو پاتے، اور روزگار کے مواقع ختم ہو رہے ہیں۔ ایک نسل ہے جو سکول، کھیل اور مستقبل کے خوابوں کے بجائے صرف بموں اور ا ور گولیوں کی آواز سن کر جوان ہو رہی ہے۔
سارے پس منظر میں ایک اور تضاد بھی نمایاں ہے۔ مرکز میں پی ٹی آئی اپوزیشن میں ہے مگر خیبر پختونخوا میں حکومت کر رہی ہے۔ فوجی کارروائیاں چونکہ مرکز کی پالیسی کے تحت ہوتی ہیں، اس لیے صوبائی حکومت بسا اوقات ان پر تحفظات کا اظہار کرتی ہے۔ یوں ایک طرف وفاق یہ کہتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نرمی نہیں برتی جائے گی، اور دوسری طرف صوبائی حکومت ان کارروائیوں پر سوال اٹھاتی ہے۔
یہ دوہرے مؤقف عام لوگوں میں مزید ابہام اور بے اعتمادی پیدا کرتے ہیں۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ آخر وہ کس پر بھروسہ کریں ؟ مرکز پر یا صوبے پر؟
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ صرف بندوق اور بموں سے یہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ اگر یہ راستہ کارگر ہوتا تو اب تک امن قائم ہو چکا ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سماجی اور معاشی اقدامات کیے جائیں۔
مقامی لوگوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ محض اس جنگ کے تماشائی یا شکار نہیں بلکہ امن کے شراکت دار ہیں۔
شورش زدہ علاقوں میں تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ نوجوان شدت پسندی کی طرف نہ جائیں۔
سکول، ہسپتال اور سڑکیں بنائی جائیں تاکہ عام لوگ محسوس کریں کہ ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
سیاسی قیادت، قبائلی عمائدین اور سول سوسائٹی کو شامل کیے بغیر امن ممکن نہیں۔
اگر کسی آپریشن میں عام شہری متاثر ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ فوری انصاف اور مدد کی جائے، تاکہ یہ زخم ناسور نہ بن جائے۔
تیراہ کا سانحہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ شورش صرف ایک فوجی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔ یہ مسئلہ بندوق سے زیادہ مکالمے، تعلیم اور اعتماد سے حل ہو سکتا ہے۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں امن قائم ہو، تو ہمیں محض عسکری طاقت پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ لوگوں کے دل جیتنے ہوں گے۔
تیراہ کا یہ سانحہ ہمیں ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر کب تک عام لوگ ریاست اور شدت پسندی کے بیچ پسے رہیں گے۔ اگر امن کی قیمت ہمیشہ معصوم جانوں کی قربانی ہے تو یہ امن نہیں، بلکہ ایک لامتناہی جنگ ہے۔ اصل سوال یہی ہے کہ ہم کب اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ بندوق صرف وقتی سکوت لا سکتی ہے، پائیدار سکون نہیں۔ جب تک ریاست اور سماج مل کر انسان کو جنگ کے ایندھن کے بجائے امن کا شراکت دار نہیں بناتے، تب تک ہر آپریشن کے بعد ایک نیا سانحہ اور ہر سانحے کے بعد ایک نئی بے بسی جنم لیتی رہے گی۔
ندیم احمد فاروقی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں