سوشل میڈیا یونیورسٹی — جہاں سب پروفیسر ہیں
سوشل میڈیا یونیورسٹی — جہاں سب پروفیسر ہیں
دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی نہ ہارورڈ ہے، نہ آکسفورڈ اور نہ ہی کسی مشہور شہر کی کوئی پرانی درسگاہ۔ اصل یونیورسٹی تو وہ ہے جو ہماری جیب میں موجود چھوٹے سے موبائل فون کے اندر چھپی ہے۔ جی ہاں، یہی ہے “سوشل میڈیا یونیورسٹی” جہاں ہر انسان بغیر کسی امتحان یا انٹری ٹیسٹ کے پروفیسر بن سکتا ہے۔
یہ یونیورسٹی بڑی فراخ دل ہے۔ یہاں نہ داخلہ ٹیسٹ ہے، نہ فیس، نہ ہی حاضری کا جھنجھٹ۔ صرف ایک اکاؤنٹ بنائیں، پروفائل پکچر لگائیں، اور آپ اگلے دن سے کلاس لینے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ یہ ادارہ کسی بورڈ یا تعلیمی کمیشن سے رجسٹرڈ نہیں، لیکن دنیا کی سب سے بڑی ڈگریاں یہی بانٹتا ہے۔ “ڈاکٹرآف لائکس”، “پروفیسر آف شیئرز”، "پروفیسر آف کاپی پیسٹ"، اور “فلاسفر آف کمنٹس” کی ڈگریاں اس یونیورسٹی سے بہت ہی کم وقت میں مل جاتی ہیں۔
ٹائم لائن بطور کلاس روم
اگر آپ سوچتے ہیں کہ اس یونیورسٹی کی عمارت کہاں ہے تو جناب اس کا جواب بہت آسان ہے۔ اس کے لیکچر ہال دراصل آپ کی ٹائم لائن ہیں۔ ہر پوسٹ ایک نیا لیکچر، ہر میم ایک پریکٹیکل اور ہر کمنٹ ایک viva exam۔
یہاں بلیک بورڈ نہیں، بلکہ کی بورڈ ہے۔ یہاں کوئی استاد ہاتھ میں چھڑی لے کر نہیں آتا، بلکہ نیا نیا ماہر ہر روز کسی نہ کسی موضوع پر تھریڈ بنا کر بیٹھ جاتا ہے۔ اور طلبہ کون ہیں؟ وہی آپ کے دوست اور فالورز، جو کبھی clap کرتے ہیں، کبھی buu کرتے ہیں، اور کبھی اگلے لمحے خود ہی استاد بن جاتے ہیں۔
نصاب کون بناتا ہے؟
روایتی یونیورسٹیوں میں نصاب سالوں کے مطالعے اور ریسرچ کے بعد بنتا ہے، لیکن سوشل میڈیا یونیورسٹی میں نصاب منٹوں میں تخلیق ہوتا ہے۔
کوئی خبر آئی؟ فوراً نیا لیکچر تیار ہوجاتا ہے۔ کوئی بیماری پھیل جاتی ہے تو یوٹیوب اور گوگل سرچ سے سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی پوری کھیپ سوشل میڈیا پر نمودار ہوجاتی ہے۔ کوئی عالمی بحران ہوا تو اب سب کے سب بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بن جاتے ہیں۔
یوں یہ یونیورسٹی دن میں سو بار اپنا نصاب بدلتی ہے۔ آج معیشت کا کورس ہے، تو کل مذہب کا، پرسوں فلکیات اور اگلے دن کھانوں کی ترکیبیں۔ یہاں versatility ہی اصل ڈگری ہے۔
اساتذہ کے مضامین
1. ڈاکٹر گوگل کے شاگرد
یہ گروہ سب سے بڑا ہے۔ کسی کے سر میں درد ہو یا کسی کا بلڈ پریشر بڑھ جائے، فوری نسخہ حاضر ہے۔
“نمکین پانی پی لیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔”
ڈاکٹر گوگل کے یہ شاگرد اتنے تجربہ کار ہیں کہ کورونا کے دنوں میں انہوں نے پوری دنیا کو مشورے دیے۔ ویکسین سے پہلے ہی وہ بتا چکے تھے کہ لہسن، ہلدی اور نیم کے پتے سب سے بڑی دوا ہیں۔
2. ماہرِ معیشت پروفیسر
اگر ڈالر کی قیمت بڑھ جائے تو یہ بتاتے ہیں کہ حکومت نے زیادہ چائے پی لی ہے۔ اگر اسٹاک مارکیٹ گرے تو کہتے ہیں کہ لوگوں نے زیادہ جوتے خرید لیے۔ ان کی معاشیات کا اصول بہت سادہ ہے۔ “جو سمجھ نہ آئے اسے سازش کہہ دو، سب مطمئن ہو جائیں گے۔”
3. انسٹاگرام اور فیس بک کے فلاسفرز
یہ وہ طبقہ ہے جو صبح اٹھتے ہی گہرے اقوال پوسٹ کرتا ہے۔
"زندگی ایک سیلفی ہے، فلٹر لگاؤ ورنہ کوئی لائک نہیں کرے گا۔"
ان کے اقوال اتنے profound ہوتے ہیں کہ سقراط اور ارسطو کی روحیں بھی کنفیوز ہو جائیں کہ آخر یہ wisdom کہاں سے آ رہی ہے۔
4. سیاست دانوں کے استاد
یہ وہ لوگ ہیں جو ہر سیاسی جلسے کا تجزیہ ایسے کرتے ہیں جیسے کل ہی پارلیمنٹ میں تقریر دے کر آئے ہوں۔ انہیں ہر پارٹی کے راز معلوم ہوتے ہیں۔ ہر سازش کی تفصیل اور ہر تقریر کی پوشیدہ نکات کا ان کو علم ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے جیسے ملکی اور بین الاقوام کی پوری سیاست انہی کے اشاروں پر چل رہی ہے۔
5. مذہبی اسکالرز
یہ گروہ سب سے زیادہ نازک ہے۔ ایک آیت یا حدیث کا حوالہ ملتے ہی ہر کمنٹ سیکشن میں پچاس مفتی جنم لے لیتے ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ وہ اختلاف کرتے ہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ سب کا لہجہ یوں ہوتا ہے جیسے دوسرا کافر ہو گیا ہو۔
واٹس ایپ سٹیٹس: سائلنٹ لیکچر ہال
اگر سوشل میڈیا یونیورسٹی کے بڑے لیکچر ہال ٹائم لائن ہیں، تو واٹس ایپ سٹیٹس اس کے سائلنٹ لیکچر ہال ہیں۔ یہاں لیکچر آواز کے بغیر دیا جاتا ہے، اور شاگرد صرف 24 گھنٹے کے لیے داخلہ لیتے ہیں۔
پختونخوا میں تو یہ رجحان نیا نصاب بن چکا ہے۔ لوگ اب سیدھی بات کرنے کے بجائے اشاروں میں فلسفہ جھاڑتے ہیں۔ اگر کسی سے ناراض ہیں تو سٹیٹس لگا دیا: "کچھ لوگ ہمیشہ دھوکہ دیتے ہیں"
اگر کسی کو نیچا دکھانا ہو تو لکھ دیا: "وقت سب کو دکھائے گا کہ اصلی کون ہے اور نقلی کون"
اور اگر کسی کو تڑپانا ہو تو بس ایک غزل کی دو سطریں کاپی پیسٹ کر دیں۔
یوں ایک طرف استاد غائب رہتا ہے، لیکن شاگرد تڑپ تڑپ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سبق کس کے لیے ہے۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اب جھگڑوں کا میدان بھی یہی ہے۔ پہلے لوگ سامنے بیٹھ کر بحث کرتے تھے، اب ہر شخص اپنے اپنے سٹیٹس کے قلعے سے تیر چلاتا ہے۔
ایک نے لکھا: "وفا بھی ایک دن شرمندہ ہو جاتی ہے"
تو دوسرے نے فوری جواب دیا: "کچھ لوگ خود غرضی کو محبت کا نام دیتے ہیں"۔
یوں 24 گھنٹے میں پورا کورس مکمل ہو جاتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ڈگری صرف "دل جلنے" کی شکل میں ملتی ہے۔
امتحانات اور ڈگریاں
اب سوال یہ ہے کہ اس یونیورسٹی میں امتحان کیسے ہوتے ہیں؟ تو جناب! یہاں امتحان کا معیار بڑا آسان ہے۔ اگر آپ کی پوسٹ کو زیادہ لائکس ملے تو آپ پاس ہیں۔
اگر زیادہ شیئر ہوئے تو آپ نے distinction حاصل کر لی۔
اور اگر کمنٹس میں لڑائی چھڑ گئی تو سمجھ لیں کہ آپ Gold Medalist ہیں۔
مذاق میں سنجیدہ پہلو
ہنسی مذاق اپنی جگہ، لیکن اس یونیورسٹی کا اثر معاشرے پر واقعی گہرا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ ہمیں ہنسنے کا موقع دیتی ہے، وہیں دوسری طرف یہ بھی دکھاتی ہے کہ کس طرح بغیر تحقیق کے رائے دینا ایک کلچر بن چکا ہے۔
جعلی ماہرین نے کئی بار نقصان بھی پہنچایا ہے۔ بیماریوں کے غلط نسخے لوگوں کو خطرناک راستوں پر لے گئے۔ سیاست اور معیشت پر مبنی غلط بیانی نے عوامی سوچ کو گمراہ کیا۔ اور مذہبی اختلافات کو بڑھا کر نفرت کی آگ کو ہوا دی۔
یعنی یہ یونیورسٹی صرف مزاحیہ نہیں، بلکہ ایک آئینہ بھی ہے جو ہمیں ہماری اجتماعی عادتیں دکھاتا ہے۔
اختتامیہ
سوشل میڈیا یونیورسٹی ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں ہر کوئی استاد ہے اور ہر کوئی طالب علم۔ یہاں داخلہ لینا آسان ہے، لیکن حقیقت کو پہچاننا مشکل۔
ہم سب اس یونیورسٹی کا حصہ ہیں۔ کبھی استاد بنتے ہیں، کبھی شاگرد، اور کبھی صرف سامع۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ ہم سیکھیں کہ لائکس اور شیئرز ڈگری نہیں ہوتے، اصل ڈگری تحقیق، برداشت اور سچائی ہے۔
تو اگلی بار جب کوئی دوست آپ کو فیس بک پر فلسفہ پڑھائے، ٹوئٹر پر معیشت کا لیکچر دے، یا واٹس ایپ سٹیٹس کے ذریعے آپ کو گھما گھما کر پیغام دے، تو بس مسکرا کر کہیے:
“واہ استاد جی! آپ تو سوشل میڈیا یونیورسٹی کے وائس چانسلر لگتے ہیں! 🤣
ندیم احمد فاروقی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں