بگرام ائیر بیس کی تاریخ اور سٹرٹیجک اہمیت

 باگرام ایئر بیس: تاریخ، اسٹریٹیجک اہمیت اور موجودہ جغرافیائی سیاست

افغانستان کی زمین ہمیشہ عالمی طاقتوں کے لیے دلچسپی اور کشمکش کا میدان رہی ہے۔ برطانوی استعمار سے لے کر سوویت یونین اور پھر امریکہ تک، ہر بڑی طاقت نے یہاں اپنی موجودگی کو ناگزیر سمجھا۔ انہی طاقتوں کی حکمتِ عملی میں باگرام ائیر بیس کا نام سب سے نمایاں رہا ہے۔  کابل سے تقریباً پچاس کلومیٹر شمال میں واقع یہ بیس افغانستان کی تاریخ میں محض ایک فوجی اڈہ نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی ترجیحات اور پالیسیوں کا عکاس بھی رہا ہے۔ 18 ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران  کہا  کہ ان کی انتظامیہ طالبان سے باگرام ایئر بیس واپس لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ابھی اس کے بارے میں زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔  اب جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےباگرام بیس کو واپس لینے کی خواہش  کا اظہار کیا ہے، تو یہ سوال ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ باگرام کی اصل کہانی کیا ہے اور اس کے گرد مستقبل کی سیاست کس سمت جا سکتی ہے؟
باگرام بیس کی بنیاد 1950 کی دہائی میں رکھی گئی۔ ابتدا میں یہ اڈہ سوویت یونین کی تکنیکی مدد سے تعمیر ہوا اور جلد ہی افغانستان کی فوجی حکمتِ عملی کا اہم حصہ بن گیا۔ 1979 میں جب سوویت افواج  افغانستان میں داخل ہوئیں تو باگرام ان کے لیے سب سے بڑی اور محفوظ ترین بیس بن گئی تھی۔  یہاں سے سوویت طیارے اڑان بھرتے، نگرانی کرتے اور کارروائیاں انجام دیتے۔
1989 میں سوویت انخلا کے بعد یہ بیس ایک عرصے تک خانہ جنگی کا شکار افغانستان میں مختلف دھڑوں کے کنٹرول میں آتا جاتا رہا۔ مگر 2001 میں نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے طالبان حکومت ختم کرکے افغانستان  میں اپنی فوج داخل کی تو باگرام نے ایک نئی زندگی پائی۔ یہ بیس امریکی اور نیٹو افواج کا سب سے بڑا اور سب سے اہم فوجی مرکز بن گیا۔ اس کی طویل رن وے ، جدید  انفراسٹرکچر اور یہاں موجود انٹیلیجنس نیٹ ورک امریکہ کو خطے پر گہری نظر رکھنے کا موقع فراہم کرتا تھا۔
باگرام ایئر بیس کا مقام غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ صرف افغانستان کے اندر کارروائیوں کے لیے ہی اہم نہیں بلکہ اس کے ارد گرد واقع ممالک کے لیے بھی ایک حساس مقام ہے۔
یہ پاکستان سے تقریباً 375 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔  جہاں سے ڈرون آپریشنز اور انٹیلیجنس سرگرمیاں پاکستان کے شمالی علاقوں پر اثر ڈال سکتی ہیں۔
یہاں سے ایران کا مغربی سرحد صرف 600 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ جس سے ایران کے مشرقی علاقوں کی نگرانی ممکن ہے۔
چین کے سنکیانگ صوبے کے حساس علاقے یہاں  سے 800 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، جو بیجنگ کے لیے سب سے بڑی تشویش ہے۔
روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے راستے تقریباً 2000 کلومیٹر دور ہیں ، مگر پھر بھی یہ  ایک ایسا مقام ہے جہاں سے روسی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔
یوں باگرام نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے لیے ایک اسٹریٹیجک لینڈ مارک ہے۔ اور شائد یہی وجہ ہے کہ امریکہ اسے کھونا کھونا نہیں چاہتا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے  حالیہ پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکہ باگرام بیس کو دوبارہ حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔  اس بیان کے پیچھے کئی عملی محرکات ہیں۔
امریکہ افغانستان سے انخلا کے بعد خطے میں اپنی فوجی موجودگی کھو بیٹھا ہے۔ باگرام کی واپسی سے وہ نہ صرف طالبان بلکہ پاکستان، چین، روس اور ایران پر بھی براہ راست دباؤ ڈال سکتا ہے۔
چین سی پیک اور وسطی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ باگرام کی واپسی سے امریکہ بیجنگ پر بھی دباؤ ڈال سکتا ہے۔
امریکہ جانتا ہے کہ باگرام پر دوبارہ کنٹرول طالبان کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے لیے واشنگٹن کے پاس کچھ آپشن ہوسکتے ہیں۔ اس وقت طالبان حکومت کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ عالمی برادری نے ان کے اثاثے منجمد کر رکھے ہیں۔ امریکہ اگر بڑے مالی پیکجز، انفراسٹرکچر کی سرمایہ کاری، یا براہِ راست امداد کی پیشکش کرے تو طالبان شائد اس پر غور کریں۔ دوسری طرف
طالبان کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ ان کی حکومت کو دنیا باضابطہ تسلیم کرے۔ اگر امریکہ باگرام کے بدلے میں ان کی حکومت کو تسلیم کرنے پر راضی ہو جائے، تو یہ طالبان کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا طالبان اپنی سخت گیر پالیسیوں، خصوصاً خواتین کے حقوق اور انسانی آزادیوں پر سمجھوتہ کریں گے؟ یا وہ صرف اپنی بقا اور اقتدار کے لیے یہ ڈیل کریں گے؟
اس کے علاوہ پڑوسی ممالک کے بھی کچھ تحفظات ہوسکتے ہیں۔ چین پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی استحکام کا احترام کیا جائے۔ باگرام پر امریکی واپسی بیجنگ کے لیے تشویش ناک ہوگی، خصوصاً سنکیانگ کی قربت کی وجہ سے۔
پاکستان ایک نازک پوزیشن میں ہوگا۔ ایک طرف امریکہ سے تعلقات اور مالی ضرورتیں،  تو دوسری طرف طالبان کے ساتھ قریبی روابط اور چین کا دباؤ۔  جس سے پاکستان غالباً ایک محتاط اور غیر جانبدارانہ پالیسی اپنائے گا، مگر طالبان  کے مؤقف کے قریب کھڑا ہوگا۔
ماسکو بھی اس پیش رفت کو اپنے لیے خطرہ سمجھے گا۔ وسطی ایشیا اور خطے کے دیگر ممالک میں روس کے مفادات ہیں۔ اسلئے روس امریکہ کی باگرام واپسی کو  اپنے اثر و رسوخ کے لیے براہِ راست چیلنج تصور کرے گا۔

اگر امریکہ اور طالبان کے درمیان کوئی ڈیل ہو جاتی ہے تو اس کے اثرات صرف افغانستان تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے خطے کو متاثر کریں گے۔ افغانستان میں امریکہ کی واپسی معاشی استحکام لا سکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف نئی کشیدگیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ طالبان اگر مراعات کے بدلے باگرام پر راضی ہوتے ہیں تو یہ ان کے اندرونی حلقوں میں اختلافات پیدا کر سکتا ہے۔
اور اس کے ساتھ خطے کے  دوسرے ممالک چین، پاکستان، ایران اور روس  اپنی حکمتِ عملی تبدیل کریں گے۔  یوں افغانستان ایک بار پھر عالمی سیاست کا میدانِ جنگ بن سکتا ہے۔
باگرام ایئر بیس محض ایک فوجی اڈہ نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے خوابوں اور خدشات کا آئینہ ہے۔ امریکہ اسے دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ طالبان اپنی بقا  کی تلاش میں ہیں۔  اور خطے کے ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان ایک بار پھر عالمی طاقتوں کی شطرنج کی بساط بنے گا یا افغان عوام اپنی خودمختاری اور امن کو ترجیح دے سکیں گے؟
یہ سوال آج بھی کھلا ہے، اور اس کا جواب آنے والے مہینوں اور سالوں میں دنیا کے لیے فیصلہ کن ہوگا۔

ندیم احمد فاروقی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

"مرد اور عورت کی دوستی " حقیقت یا فریب

تیراہ کاسانحہ: امن کی تلاش یا لا متناہی جںگ

مشرق وسطیٰ کی نئی بساط