ریاض اور اسلام آباد کا دفاعی معاہدہ

 ریاض اور اسلام آباد کا دفاعی معاہدہ: امن کی ضمانت یا نئے تصادم کی پیشگوئی

خلیج کی ریت میں تاریخ نے ہمیشہ نئی لکیریں کھینچی ہیں۔ کبھی تیل کی خوشبو نے طاقت کی سمت متعین کی، کبھی قبلۂ اول نے جذبات کو بھڑکایا، اور کبھی عالمی طاقتوں کی مداخلت نے تقدیر کا نقشہ بدل ڈالا۔ ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا نیا دفاعی معاہدہ خطے میں ایک نئی بحث کا آغاز ہے۔ معاہدہ کہتا ہے: اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوا تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔  بظاہر یہ الفاظ سادہ ہیں مگر ان کے مضمرات نہایت پیچیدہ ہیں۔
معاہدے کی بنیادی نکات
کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں مشترکہ دفاع۔
انٹیلی جنس اور سیکیورٹی تعاون میں اضافہ۔
جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اشتراک۔
خطے میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی۔
یہ نکات بظاہر دفاعی ہیں لیکن ان کا دائرہ اثر بہت وسیع ہے۔ یہ صرف پاکستان اور سعودی عرب تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور عالمی طاقتوں تک پھیل جاتے ہیں۔
اسرائیل کو عرب دنیا سے کبھی براہِ راست فوجی خطرہ نہیں رہا۔ بلکہ متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک نے ابراہیمی معاہدوں کے تحت اسے تسلیم بھی کر لیا۔ تاہم ایران اسرائیل کے لیے ہمیشہ سب سے بڑا چیلنج رہا ہے۔ اس سال جون میں اسرائیل نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔  مگر اپنے اندازوں میں غلط ثابت ہوا اور کچھ دنوں بعد جنگ عارضی طور پر روک دی ۔  لیکن پچھلے
دنوں  اچانک اسرائیل نے قطر اور دیگر عرب ممالک میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا۔  اور یہ اعلان کیا کہ "دہشت گردوں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں ماریں گے"۔ اس بیان کے ساتھ اسامہ بن لادن کے پاکستان میں امریکہ کے  ہاتھوں انجام کی مثال بھی دی۔ یہ طرزِ عمل صرف قطر یا فلسطینی گروہوں کے لیے نہیں بلکہ پورے خطے کے لیے ایک تشویش کا باعث بن گئی ۔  اس واقعے کو دیگر عرب ممالک کے ساتھ سعودی عرب نے بھی اپنے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھا۔ عرب ممالک جانتے ہیں کہ اگر اسرائیل کو کھلی چھوٹ ملی تو کل ان کی خودمختاری بھی داؤ پر لگ سکتی ہے۔ اس دوران سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ ایک دو طرفہ دفاعی معاہدہ کیا جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ معاہدہ ایک طرف مواقع لے کر آتا ہے،  تو دوسری طرف کڑی آزمائش بھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست جنگ چھڑ جاتی ہے تو کیا پاکستان اس میں شامل ہوگا؟
قانونی طور پر معاہدے کی شقیں پاکستان کو شریک کرتی ہیں۔ لیکن عملی سطح پر فیصلہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ایک طرف سعودی عرب کے ساتھ اخوت اور مذہبی رشتہ ہے، تو دوسری طرف عالمی دباؤ، معیشت کی نازک صورتحال اور بھارت کے ساتھ مسلسل کشیدگی بھی موجود ہے۔ جبکہ افغانستان کے ساتھ بھی حالات کافی تلخ ہیں۔
اس کے ساتھ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا سوال  دنیا کو تشویش میں مبتلا کررہا ہے۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ سے یہ ہے کہ ایٹمی صلاحیت صرف دفاعِ وطن کے لیے ہے۔ اور اس کا کسی دوسرے ملک کو براہِ راست منتقلی یا استعمال نہیں ہوگا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب پر کوئی بڑا خطرہ آیا تو کیا پاکستان کے ایٹمی وسائل بالواسطہ اس کے دفاع کے لیے استعمال ہوں گے؟ اس سوال کا جواب وقت ہی دے گا، مگر عالمی برادری کی تشویش پہلے ہی بڑھ چکی ہے۔
دوسری جانب پاکستان-سعودی دفاعی معاہدے نے بھارت میں واضح اضطراب پیدا کیا ہے۔
تقریباً 80 لاکھ بھارتی خلیج میں کام کرتے ہیں اور ہر سال اربوں ڈالر وطن بھیجتے ہیں۔ اگر سعودی پالیسی پاکستان کے ساتھ عسکری اتحاد کو مدنظر رکھتے ہوئے بدلتی ہے تو بھارت کے لیے یہ معاشی خطرہ ہوگا۔
سعودی عرب جیسی طاقتور ریاست کے ساتھ پاکستان کا فوجی اتحاد بھارت کو دفاعی لحاظ سے مزید دباؤ میں ڈالے گا۔
بھارت یہ دیکھ کر پریشان ہے کہ معاہدے کے تناظر میں چین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ چین نے مارچ 2023 میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کر کے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا تھا۔ اگر سعودی عرب، ایران اور پاکستان سب بیجنگ کے قریب ہوتے ہیں تو یہ بھارت کے لیے سفارتی اور جغرافیائی دونوں سطحوں پر ایک ڈراؤنا خواب ہوگا۔
دوسری طرف ایران پہلے ہی  اس خطے میں سعودی عرب کو اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا ہے۔ اگر پاکستان کھل کر سعودی دفاع میں شامل ہوتا ہے تو یہ ایران کے لیے ایک براہِ راست خطرہ ہوگا۔ سرحدی جھڑپیں، پراکسی گروہوں کی سرگرمیاں اور سفارتی کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہیں۔ یوں پاکستان کو ایک ساتھ دونوں محاذوں یعنی بھارت اور ایران سے چیلنج درپیش ہوگا۔

یہ معاہدہ صرف علاقائی نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوگا۔
امریکہ: چاہے گا کہ سعودی عرب اسرائیل کے قریب رہے، نہ کہ پاکستان یا چین کے۔
جبکہ چین اس معاہدے کو اپنی مشرقِ وسطیٰ پالیسی میں ایک نیا کارڈ سمجھے گا۔
روس چاہے گا کہ سعودی عرب اور پاکستان اس کے قریب آئیں تاکہ وہ امریکہ کو مزید دباؤ میں ڈال سکے۔
یوں خطہ ایک بار پھر سرد جنگ جیسی صف بندی کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن اس بار محور مشرقِ وسطیٰ ہے۔
جنگ اور معاہدوں کے بیچ سب سے بڑی حقیقت انسان ہے۔ جب بڑے ممالک اپنے ہتھیاروں کو چمکاتے ہیں تو سب سے پہلے چھوٹے گھروں کے چراغ بجھتے ہیں۔ ایک فلسطینی ماں اپنے بیٹے کو کھو دیتی ہے۔ ایک بھارتی مزدور خلیج میں اپنی روزی کھو دیتا ہے، ایک پاکستانی سپاہی بارڈر پر اپنی جان دیتا ہے۔
تاریخ یہی بتاتی ہے کہ طاقت کے کھیل میں نقصان ہمیشہ عام انسان کا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک بار پھر انہی غلطیوں کو دہرانے جا رہے ہیں یا اس بار یہ معاہدے امن کے ضامن بنیں گے؟
پاکستان-سعودی دفاعی معاہدہ ایک نئی تاریخ لکھ رہا ہے۔ یہ خطے میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے، اتحاد پیدا کر سکتا ہے یا نئے تصادم کو جنم دے سکتا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت، ایران کی تشویش، بھارت کی بے چینی اور عالمی طاقتوں کی صف بندیاں ، یہ سب مل کر مشرقِ وسطیٰ کو ایک نازک دہانے پر لے آئے ہیں۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ ریت کی سرزمین پر یہ نیا سمجھوتہ روشنی لاتا ہے یا دھواں۔ اور شاید یہی اس عہد کا سب سے بڑا سوال ہے۔

ندیم احمد فاروقی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

"مرد اور عورت کی دوستی " حقیقت یا فریب

تیراہ کاسانحہ: امن کی تلاش یا لا متناہی جںگ

مشرق وسطیٰ کی نئی بساط