پرانے وقتوں کے علاج سے آج کے مہنگے علاج تک — کیا بدلا اور کیا ویسا ہی رہا؟

پرانے وقتوں کے علاج سے آج کے مہنگے علاج تک — کیا بدلا اور کیا ویسا ہی رہا؟
انسان کی تاریخ اگر دیکھی جائے تو بیماری اس کا سب سے پرانا دشمن ہے۔ تہذیب کے آغاز سے آج تک انسان نے جس جس محاذ پر جنگ لڑی ہے، ان میں بیماری سب سے زیادہ دیرپا اور سب سے زیادہ سفاک ثابت ہوئی۔ فرق صرف یہ ہے کہ پرانے وقتوں میں انسان بیماری کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتا تھا۔ اور آج وہ اس کے علاج کی قیمت برداشت نہ کر پانے پر مجبور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صدیوں کا سفر ہمیں بیماری سے آزادی دے سکا، یا ہم محض ایک نئے جال میں پھنس گئے ہیں؟
پرانے وقتوں کی دوا اور دادی نانی کی الماری
ہمارے گھروں میں پرانی الماریاں، لکڑی کے صندوقچے اور کونے میں رکھی شیشیاں یاد آتی ہیں۔ ان ہی میں چھوٹی سی بوتل "امرت دھارا" کی رکھی رہتی تھی جسے عرف عام میں امردارہ کہا جاتا تھا۔ یہ ہر مرض کی دوا سمجھی جاتی تھی۔  ذرا سا قطرہ پانی میں ڈال کر پلایا جاتا تو سمجھا جاتا تھا کہ پیٹ درد، نزلہ، سردرد، سب غائب ہو جائیگا ۔ بچپن میں مجھے بھی یہی" امرت دھارا" کئی دفعہ پلایا گیا ہے۔ اس کا کڑوا ذائقہ اور تیز خوشبو اب بھی یاد ہے۔
اس کے ساتھ ہی گھر کے باورچی خانے میں دوا کی ایک دنیا موجود تھی۔ ہلدی والا دودھ، قہوہ، نیم کی پتیوں کا جوشاندہ، اجوائن کے بیج  اور ڈھیر ساری جڑی بوٹیاں یہ سب ہر بیماری کا حل سمجھے جاتے تھے۔ زخموں پر سرسوں کا تیل گرم کرکے پٹی کی جاتی۔  یہ دوا  کبھی کام کرتی یا نہیں لیکن  یقین زیادہ کام کرتا تھا۔
دم درود، تعویذ اور عقیدے کا سہارا
بیماری کے علاج میں دوا کے ساتھ ساتھ دعا کو بھی برابر کی اہمیت حاصل تھی۔ بیمار بچے کے کان میں سورہ یٰسین پڑھ کر پھونک دینا، پانی پر دم کر کے پلانا، یا تعویذ گلے میں ڈال دینا عام رواج تھا۔
آج جن بیماریوں کو ہم ڈپریشن، مرگی یا شیزوفرینیا کہتے ہیں، ان بیماریوں کو اس وقت جنات کا سایہ یا نظر بد سمجھا جاتا تھا۔ مریض کو عامل کے پاس لے جایا جاتا، جھاڑ پھونک کی جاتی، اور سمجھ لیا جاتا کہ علاج ہو گیا۔ اصل بیماری جوں کی توں رہتی مگر خاندان کو یہ تسلی ضرور ملتی کہ انہوں نے علاج کرا دیا ہے۔ یہاں میں ایک حقیقت بتاتا ہوں کہ میرے اپنے گھر میں یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ میرے دادا اور پھر میرے والد جنات کو بھگانے کا عمل کرتے تھے۔ دم اور تعویذ سے علاج کیا جاتا۔ لوگ دور دور سے اپنے بیمار بچوں یا خواتین کے ساتھ ہمارے گھر آتے ساتھ میں  پانی کی بوتلیں اور امیدیں لاتے کہ دم اور تعویز سے بیماری ختم ہو جائیگی۔  انہیں یقین ہوتا  کہ ایک کاغذ پر لکھا ہوا تعویذ یا دم کیا ہوا پانی ان کے تکلیف  کو کم یا ختم کر دے گا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علم کا  طب سے زیادہ یقین اور دعا پر بھروسہ تھا۔
ہڈی جوڑنے والے کاریگر
دیہات میں کارپنٹر یا کاریگر ہڈی جوڑنے کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ اگر کسی کی ہڈی ٹوٹ جاتی تو اسےگاؤں کے ہڈی جوڑنے والے کے پاس لے جایا جاتا۔ لکڑی کی تختی، کپڑے کی پٹیاں اور جڑی بوٹیوں کا لیپ ہی پورا علاج ہوتا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کئی بار یہ دیسی علاج واقعی کام بھی کر جاتا تھا۔  اگرچہ پیچیدہ کیس میں مریض عمر بھر کیلئے لولا یا لنگڑا بھی ہوتا۔
بیماری اور تقدیر کا تعلق
اس دور میں موت عام سی بات تھی۔ بخار بگڑ جاتا تو جان نکل جاتی۔ زچگی کے دوران عورت کا بچ جانا قسمت سمجھا جاتا تھا۔ اور تپِ دق (ٹی بی) جیسے امراض کا نام سننا بھی خوفناک لگتا۔ بیماری کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ لیا جاتا اور صبر ہی سب سے بڑی دوا تھی۔
آج کا زمانہ — دوا موجود مگر مہنگی
وقت بدلا، سائنس آگے بڑھی، اسپتال قائم ہوئے، آپریشن تھیٹر اور جدید مشینیں آئیں۔ آج بیماری کی تشخیص آسان ہے، اور وہ امراض جنہیں کبھی "لا علاج" کہا جاتا تھا، ان کا بھی علاج ممکن ہے۔
لیکن آج کی سب سے بڑی بیماری "مہنگائی" ہے۔ دوائی موجود ہے مگر غریب کی جیب تک نہیں پہنچتی۔ کینسر کا علاج لاکھوں میں ہے، دل کا آپریشن عام آدمی کے بس سے باہر، اور ذیابطیس کے انسولین کے انجیکشن مہینے کی آمدنی نگل لیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے علاج نے ایک نیا طبقاتی نظام قائم کر دیا ہے۔ جو   علاج خرید سکتا ہے وہ زندہ رہتا ہے۔  جو نہیں خرید سکتا وہ موت کے حوالے ہو جاتا ہے۔
کیا واقعی فرق پڑا ہے؟
یوں لگتا ہے کہ انسانی المیہ جوں کا توں ہے۔ پہلے لوگ دوا نہ ہونے سے مرتے تھے، آج دوا مہنگی ہونے سے مر رہے ہیں۔ پہلے جہالت اور کمی نے مارا، آج غربت اور معاشی نظام مار رہا ہے۔ پہلے بیماری کا علاج دادی، نانی کے ٹوٹکوں, دم درود اور دیسی نسخوں پر تھا۔ جبکہ آج ڈاکٹروں کی پرچی اور فارمیسی کی بل پر ہے۔
نتیجہ
انسان نے ترقی ضرور کی ہے، مگر بیماری کے سامنے آج بھی کمزور ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پرانے وقتوں میں موت کو تقدیر کہہ کر قبول کیا جاتا تھا، آج اسے "مہنگائی" اور "سسٹم کی خرابی" کہہ کر کوسا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے وقت میں انسان واقعی بیماری کے مقابلے میں آزاد ہوگا؟ یا یہ جنگ ہمیشہ اسی طرح ہاری جائے گی، بس شکلیں بدلتی رہیں گی؟

ندیم احمد فاروقی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مووائیل غار رومانیہ میں 50 لاکھ سالوں سے بند زندگی کی بازگشت

زندگی بیچ چوراہے میں جہاں کرکٹ اور سیاست کا شور ہے

پاک۔سعودی دفاعی معاہدہ: ایگریمنٹ یا ٹریٹی؟