چین کا معاشی ماڈل: سوشلزم، کیپٹلزم اور نئی راہیں
چین کا معاشی ماڈل: سوشلزم، کیپٹلزم اور نئی راہیں
دنیا کی تاریخ میں چند ہی قومیں ایسی رہی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی تقدیر بدلی بلکہ عالمی نظام کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ چین انہی قوموں میں سے ایک ہے۔ ایک ایسا ملک جس نے غربت، غلامی اور پسماندگی کے سائے سے نکل کر دنیا کی دوسری بڑی معیشت کا مقام حاصل کیا۔ لیکن یہ سفر سیدھا نہیں تھا۔ یہ کہانی ہے نظریات کے ٹکراؤ کی، خوابوں اور حقیقت کے بیچ کشمکش کی۔ اور ایک ایسے ماڈل کی جو سوشلسٹ بھی ہے اور سرمایہ دارانہ بھی، مگر دراصل ان دونوں سے مختلف ہے۔
سوشلسٹ بنیاد: ماؤ کا چین
1949ء میں جب ماؤ زے تنگ نے عوامی جمہوریہ چین کا اعلان کیا تو ملک ایک بکھرا ہوا، کمزور اور غربت زدہ خطہ تھا۔ ماؤ نے کارل مارکس اور لینن کے نظریات سے متاثر ہو کر سوشلسٹ ریاست کی بنیاد رکھی۔ زمین جاگیرداروں سے لے کر کسانوں میں تقسیم ہوئی، صنعتوں کو ریاست نے اپنے کنٹرول میں لیا، اور ایک ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کی گئی جہاں مساوات ہو اور استحصال نہ ہو جائے۔
لیکن حقیقت مختلف نکلی۔ "بڑی چھلانگ" جیسی مہمات نے قحط اور تباہی کو جنم دیا۔ پیداوار گر گئی، لاکھوں لوگ بھوک سے مر گئے، اور چین عالمی سطح پر الگ تھلگ ہو گیا۔ ماؤ کا دور سیاسی طور پر سخت گیر اور معاشی طور پر غیر لچکدار تھا۔ سوشلسٹ خواب اپنی اصل شکل میں تو قائم رہا، مگر اس نے ترقی کی بجائے عوام کو مشکلات زیادہ دیں۔
ڈینگ کا موڑ: مارکیٹ کی ہوا
1978ء میں ڈینگ ژیاؤ پنگ نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے حقیقت پسندی کو نظریے پر ترجیح دی۔ ان کا مشہور جملہ تھا:
"اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بلی سفید ہے یا سیاہ، اصل بات یہ ہے کہ وہ چوہے پکڑتی ہے یا نہیں۔"
یہ جملہ محض ایک مثال نہیں تھا بلکہ پورے نظام کی نئی سمت کا اعلان تھا۔ ڈینگ نے "سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی" کی بنیاد رکھی۔ اس سے کسانوں کو زمین پر ذاتی فیصلے کرنے کی اجازت ملی۔
چھوٹے کاروبار کھلنے لگے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہا گیا۔
خصوصی اقتصادی زونز قائم ہوئے جہاں سرمایہ دارانہ اصولوں پر ترقی کی گئی۔
یہ وہ لمحہ تھا جب چین نے سوشلسٹ بنیاد کو برقرار رکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ میکانزم کو اپنایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی دہائیوں میں چین دنیا کی فیکٹری بن گیا۔
کیپٹلزم اور سوشلسزم کا امتزاج
چین کے موجودہ نظام کو اگر قریب سے دیکھا جائے تو یہ نہ تو مکمل سوشلسٹ ہے اور نہ ہی سرمایہ دارانہ۔ اس کی چند نمایاں خصوصیات ہیں:
بڑی صنعتیں، بینک اور توانائی کا شعبہ اب بھی ریاست کے ہاتھ میں ہے۔
نجی کاروبار کو بڑھنے کا موقع دیا گیا، یہاں تک کہ دنیا کی بڑی ٹیک کمپنیوں جیسی چینی کمپنیاں پیدا ہوئیں۔
دنیا بھر سے سرمایہ چین آیا کیونکہ محنت سستی تھی اور حکومت نے سرمایہ کاروں کو سہولتیں فراہم کیں۔ جس سے
کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے اوپر آئے اور شہروں کی طرف ہجرت کی۔
یہ امتزاج ایک طرح کا "ہائبرڈ ماڈل" ہے، جہاں نظریہ اور حقیقت کو جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
شی جن پنگ کا دور: ریاست کی واپسی
جب شی جن پنگ اقتدار میں آئے تو چین کی معیشت پہلے ہی دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکی تھی۔ مگر ساتھ ہی مسائل بھی بڑھنے لگے تھے: دولت کی غیر مساوی تقسیم، بدعنوانی، اور نجی کمپنیوں کی طاقت میں اضافہ۔
شی نے ایک نئی حکمتِ عملی اختیار کی:
ریاستی کنٹرول کو مزید مضبوط کیا۔
بڑی ٹیک کمپنیوں پر کڑی نگرانی شروع کی۔
"مشترکہ خوشحالی" کے نعرے کے تحت عدم مساوات کو کم کرنے کی کوشش کی۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے عالمی سطح پر اثرورسوخ بڑھایا۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ڈینگ کے بعد جہاں مارکیٹ کی آزادی بڑھی تھی، وہاں شی نے ریاستی گرفت دوبارہ سخت کر دی۔
جمہوریت اور ایک پارٹی کا نظام
چین کی معاشی کامیابی کا تعلق براہِ راست اس کے سیاسی ڈھانچے سے ہے۔ مغربی جمہوریت کے برعکس، چین میں صرف ایک پارٹی کی حکمرانی ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری:
تمام اہم فیصلے پارٹی کے اندر ہی ہوتے ہیں۔ اقتدار کی منتقلی بھی پارٹی کے ڈھانچے میں طے شدہ طریقے سے ہوتی ہے۔
آزادی اظہار کی حدود: میڈیا، سوشل میڈیا اور اکیڈمیا پر سخت نگرانی ہے۔ حکومت یا پارٹی پر براہِ راست تنقید برداشت نہیں کی جاتی۔
متبادل جمہوری بیانیہ: چین اسے "عوامی جمہوریت" کہتا ہے، جس میں پارٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کے مفاد کی نمائندگی کرتی ہے، چاہے طریقہ کار مغرب سے مختلف ہو۔
یہ سیاسی سختی دراصل معاشی استحکام کا ایک پہلو بھی سمجھی جاتی ہے، کیونکہ پالیسیوں میں تسلسل قائم رہتا ہے اور حکومت کو طویل المدتی منصوبے بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔
تقابلی جائزہ: سوشلسزم، کیپٹلزم اور چین
سوشلسزم: مساوات پر زور دیتا ہے، مگر اکثر ترقی کی رفتار سست رہتی ہے۔
کیپٹلزم: ترقی اور پیداوار کو بڑھاتا ہے، مگر عدم مساوات اور استحصال کے خطرات رکھتا ہے۔
چین کا ماڈل: دونوں کے بیچ ایک راہ نکالتا ہے — ترقی بھی کرتا ہے اور عدم مساوات کو بھی کسی حد تک قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین اسے ریاستی سرمایہ داری (State Capitalism) کہتے ہیں، جبکہ چینی قیادت اسے "چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلسٹ معیشت" کہتی ہے۔
نتیجہ
چین کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کوئی بھی نظریہ جمود کا شکار ہو کر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ معاشی اور سیاسی نظام ہمیشہ حالات کے مطابق ڈھلنے کا نام ہے۔ ماؤ کا سخت سوشلسٹ ماڈل ناکام ہوا تو ڈینگ نے اسے نرم کیا۔ جب سرمایہ داری کے اثرات حد سے بڑھنے لگے تو شی نے ریاست کو واپس لایا۔
آج کا چین نہ صرف ایک معاشی طاقت ہے بلکہ ایک ایسا نمونہ بھی ہے جس نے دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ترقی کے راستے صرف مغربی جمہوریت یا سرمایہ داری سے نہیں گزرتے۔ البتہ یہ سوال ابھی باقی ہے کہ کیا یہ ماڈل طویل عرصے تک عوام کی خوشحالی اور آزادی دونوں کو یکجا رکھ پائے گا یا نہیں۔
ندیم احمد فاروقی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں