"ایک شوہر کی کہانی – بیگمات سے معذرت کے ساتھ "۔


 "ایک شوہر کی کہانی – بیگمات سے معذرت کے ساتھ "۔

"شادی وہ لڈو ہے جو کھائے وہ بھی پچھتائے، جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے!"
یہ جملہ سنتے ہی کئی "شادی شدہ محاذ کے سپاہی" تلخی سے مسکرا دیتے ہیں، اور کئی غیر شادی شدہ افراد بے گناہ ہرنی کی طرح آنکھیں پھاڑ کر پوچھتے ہیں:
"یہ آخر حقیقت ہے یا مبالغہ؟"
تو آئیے، ایک شوہر کی مکمل، تفصیلی اور صداقت پر مبنی داستانِ حیات سنتے ہیں، تاکہ ہر کنوارہ اپنی غلطی اور ہر شادی شدہ اپنی قسمت پر غور کر سکے۔
پہلا دن – "خوابوں کی جنت"
دلہا جب پہلی بار دلہن کے ساتھ گھر کے انگن  میں آ تا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بادشاہ اپنی ریاست میں واپس آیا ہو۔
سارا خاندان محبت سے دیکھ رہا ہوتا ہے، دوست مبارکبادیں دے رہے ہوتے ہیں، اور بیوی کے چہرے پر معصومیت اور ہلکی سی جھجک ہوتی ہے۔
شوہر دل میں کہتا ہے:
"یہ لمحہ زندگی بھر یاد رہے گا!"
اور قسمت دل میں ہنستی ہے:
"بالکل! خاص طور پر جب بیوی کی فرمائشیں شروع ہوں گی!"
پہلا ہفتہ – "محبت کے گلاب"
یہ ہفتہ ایسا ہوتا ہے کہ شوہر کو لگتا ہے گویا اس کی زندگی ہنی مون ہی رہے گی۔
"بیگم، تم چائے پیو گی؟"
" میں خود بنا لیتی ہوں، آپ آرام کریں!"
یہ سن کر شوہر کو لگتا ہے کہ شاید شادی شدہ زندگی صرف آرام، محبت اور مزے کا نام ہے۔
لیکن… محبت کے اس پہلے ہفتے میں ایک سچائی چھپی ہوتی ہے، جسے بیوی ابھی شوہر پر ظاہر نہیں کرتی۔
پہلا مہینہ – "حقیقت کی پہلی جھلک"
چائے اب بھی مل رہی ہوتی ہے، مگر ساتھ میں معمولی اصلاحات بھی آنا شروع ہو جاتی ہیں۔
"یہ چائے تو ٹھیک ہے، لیکن تھوڑی کم چینی ہو تو بہتر ہوگا!"
"امی کہتی ہیں کہ تمہیں زیادہ مصالحے والی چیزیں نہیں کھانی چاہئیں، صحت کے لیے اچھی نہیں ہوتیں!"
یہ وہ پہلا لمحہ ہوتا ہے جب شوہر کو محسوس ہوتا ہے کہ بیوی کا مشورہ، دراصل آرڈر ہوتا ہے، جو خوش اخلاقی سے لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔
چھ مہینے بعد – "کمانڈ اینڈ کنٹرول"
اب حالات معمول پر آ چکے ہوتے ہیں۔ شوہر اپنی عادتوں میں آزادانہ فیصلوں کا حق کھو چکا ہوتا ہے۔
جب وہ کسی دوست کو کال کر کے باہر جانے کا ارادہ کرے، تو ساتھ ہی بیوی کی آواز آتی ہے:
"کہاں جا رہے ہیں؟"
"بس یوں ہی دوستوں سے ملنے!"
"اچھا؟ اور گھر میں جو میرے ابو آ رہے ہیں، ان کی مہمان نوازی کون کرے گا؟"
یہ وہ موقع ہوتا ہے جب شوہر کو احساس ہوتا ہے کہ اب اس کی زندگی میں "بس یوں ہی" جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔
ایک سال بعد – "پختہ شوہر"
اب شوہر میں وہ تمام خصوصیات آ چکی ہوتی ہیں، جو ایک عظیم فلسفی میں ہوتی ہیں۔
• وہ بغیر کسی وجہ کے مسکرا دیتا ہے۔
• وہ بغیر کچھ کہے سر ہلانے کا ماہر بن چکا ہوتا ہے۔
• وہ ہر سوال پر بس "جو تم کہو، وہی ٹھیک ہے" کہنے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے۔
• اور سب سے اہم: وہ بغیر سوچے "جی ہاں" کہنے کا فن سیکھ چکا ہوتا ہے!
دو سال بعد – "مکمل روحانی ارتقاء"
یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب شوہر کو اب کسی بھی بات پر حیرانی نہیں ہوتی۔
"سنیں! مما کہہ رہی تھیں کہ ڈرائنگ روم کے پردے بدلنے چاہئیں!"
"ہاں بالکل، جو تم کہو!"
"اور وہ کہہ رہی تھیں کہ بیڈشیٹ  بھی نئی لینی چاہیے!"
"ہاں ہاں، جو تم کہو!"
"اور مما کہہ رہی تھیں کہ گھر کے نلکے بھی بدلوا لیں!"
"جی بالکل، جو تم کہو!"
اب شوہر کے لیے زندگی کا سب سے بڑا اصول یہی ہوتا ہے: اختلاف نہیں، بس اتفاق!
پانچ سال بعد – "بیچارگی کا عروج"
شوہر جب اپنے کسی پرانے کنوارے دوست سے ملتا ہے، جو ابھی تک خوش باش گھوم رہا ہوتا ہے، تو دل میں ایک ٹھنڈی آہ بھر کر سوچتا ہے:
"کاش میں بھی دو سال اور رُک جاتا!"
یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب اسے سچ میں وہی تجربہ ہوتا ہے، جو قربانی کے جانور کو قصائی کے ہاتھ میں دیکھ کر ہوتا ہے۔
دس سال بعد – "مکمل فنا"
اب شوہر کے پاس تین ہی راستے رہ جاتے ہیں:
• بیوی کے کہنے پر مکمل عمل کرے، تاکہ زندگی سکون سے گزرے۔
• کبھی کبھار بغاوت کرے، تاکہ زندگی میں کچھ نیا پن رہے (لیکن انجام خطرناک ہو سکتا ہے!)
• ہر ہفتے کسی بہانے "چندہ جمع کرنے" یا "تبلیغی جماعت کے ساتھ جانے" کی اجازت لے، تاکہ کچھ دن کا فرار مل سکے!
نتیجہ
یوں شادی کا یہ سفر ایک محبت بھری فلم سے نکل کر "ریئلٹی شو" بن جاتا ہے، جہاں بیوی کا ہر فقرہ قانون کی طرح حتمی اور شوہر کی رائے خاموشی میں دفن ہو چکی ہوتی ہے۔
لیکن سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ جب ایک نیا کنوارہ دوست پوچھتا ہے:
"یار، شادی کیسی چیز ہے؟"
تو یہ شوہر، جو پچھلے دس سال میں ہزاروں سمجھوتے کر چکا ہوتا ہے، بس مسکرا کر اتنا ہی کہتا ہے:
"بیٹا! شادی وہ خوشی ہے… جو دوسروں کی دیکھ کر ہوتی ہے!"

ندیم احمد فاروقی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مووائیل غار رومانیہ میں 50 لاکھ سالوں سے بند زندگی کی بازگشت

زندگی بیچ چوراہے میں جہاں کرکٹ اور سیاست کا شور ہے

پاک۔سعودی دفاعی معاہدہ: ایگریمنٹ یا ٹریٹی؟