ہماری تعلیمی نظام کا ایک جائزہ


 " ہماری تعلیمی نظام کا ایک جائزہ"

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا زینہ ہوتی ہے، لیکن ہمارے ہاں تعلیم کا زینہ ایسا ہے کہ چڑھنے والا بندہ یا تو پھسل کر نیچے آ جاتا ہے یا پھر اتنا تھک جاتا ہے کہ خود ہی بیٹھ جاتا ہے۔ اسکول بھیجتے وقت والدین کے خواب آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی بچہ اسکول سے واپسی پر بستے کا وزن گھسیٹ رہا ہوتا ہے، ان کے ارمان بھی بستے کے ساتھ زمین پر رگڑ کھانے لگتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام میں کتابیں وہی بھاری ہیں، جو کندھوں کے لیے بوجھ اور دماغ کے لیے ہلکی ہوتی ہیں۔ اکثر لگتا ہے کہ بچوں کے اسکول بیگز میں کتابیں نہیں، بلکہ اینٹیں بھری ہیں۔ وزن کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر کوئی بچہ غصے میں بستہ زمین پر دے مارے، تو زمین میں ایک گڑھا پڑ جائے۔ علم کی روشنی کے یہ دیپ اتنے بھاری ہوتے ہیں کہ خود علم بھی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اسے اتنا بوجھ کیوں اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اب اگر نصاب کی بات کی جائے، تو یہ وہ جادوئی چیز ہے جس میں تازگی ناپید ہے۔ کچھ کتابیں ایسی ہیں جنہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید علامہ اقبال نے خود چھاپ کر دی ہوں، اور کچھ میں ایسے مضامین ہیں جیسے آج کے دور میں بھی لوگ "خط کے ذریعے حال چال دریافت کرتے ہوں"۔ تاریخ کی کتابوں میں اگرچہ بادشاہوں کی فتوحات کے قصے ملیں گے، لیکن یہ کہیں نہیں لکھا ہوگا کہ تعلیم اور شعور نہ ہونے کے باعث آج ہماری قوم خود فتوحات کے بجائے ویزوں کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔
اساتذہ کی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں۔ استاد اگر مزاجاً نرم ہو تو وہ طلبہ سے ایسا سلوک کرتا ہے جیسے والدین ,کے گھر میں بچے "پکوڑوں والی پلیٹ" سے کرتے ہیں—پہلے پیار سے سمجھاتا ہے، پھر غصے سے دھمکاتا ہے، اور آخر میں مار پیٹ پر آ جاتا ہے۔ جبکہ سخت مزاج استاد وہی ہوتا ہے جو مارنے کے بجائے "ذہنی داؤ پیچ" آزمانے میں مہارت رکھتا ہے، یعنی ایسے سوال دے کر امتحان میں گھما دیتا ہے کہ ذہین سے ذہین طالبعلم بھی سوچتا رہ جائے کہ آیا یہ واقعی اسی کتاب کا پرچہ ہے جسے اس نے پورا سال پڑھا تھا۔
امتحانات میں نقل بھی ایک الگ فن ہے۔ کچھ طلبہ تو اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ پرچہ حل کرنے سے پہلے اپنے آس پاس "بے لوث مددگاروں" کا جائزہ لیتے ہیں، اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو اتنے پراعتماد ہوتے ہیں کہ سوال کو اپنی مرضی کی سمت موڑ کر جواب لکھ دیتے ہیں۔ مثلاً، اگر سوال آیا ہو "برطانیہ میں صنعتی انقلاب کے اسباب لکھیں"، تو جواب میں "ہمارے اسکول کے کینٹین میں چپس مہنگے کیوں ہیں؟" پر ایک مکمل مضمون پیش کر دیتے ہیں۔
پڑھائی کے بعد نوکری کا مرحلہ آتا ہے، جو حقیقت میں وہ کٹھن مرحلہ ہے جہاں تعلیم کی اصل حقیقت کھلتی ہے۔ والدین جو بچپن میں کہتے تھے "بیٹا، پڑھ لو ورنہ مزدور بن جاؤ گے"، اب خود کہہ رہے ہوتے ہیں "بیٹا، مزدوری مل رہی ہو تو بتانا"۔ ڈگری ہاتھ میں، قابلیت ذہن میں، اور نوکری کہیں ناپید۔ جو قسمت والے ہوتے ہیں، وہ کسی دفتر میں "انٹرن شپ" کے نام پر فری میں کام کر رہے ہوتے ہیں، اور جو زیادہ قسمت والے ہوتے ہیں، وہ انٹرن شپ کے چکر میں دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے تعلیمی نظام کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ یہ طلبہ کو خود ہی سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ آیا واقعی تعلیم ضروری تھی یا کوئی اور راستہ بھی تھا۔ جو ذرا زیادہ سوچ لے، وہ یا تو یوٹیوب چینل کھول لیتا ہے یا پھر ملک چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
یہ ہے ہمارا تعلیمی نظام، جو ہمیں اتنا کچھ سکھا دیتا ہے کہ آخر میں بندہ خود کہہ اٹھتا ہے:
"ڈگری لے لی، اب کیا کریں؟"
جواب آتا ہے:
"یہ کورس میں نہیں تھا، اگلا سوال!"
ندیم احمد فاروقی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مووائیل غار رومانیہ میں 50 لاکھ سالوں سے بند زندگی کی بازگشت

پرانے وقتوں کے علاج سے آج کے مہنگے علاج تک — کیا بدلا اور کیا ویسا ہی رہا؟

زندگی بیچ چوراہے میں جہاں کرکٹ اور سیاست کا شور ہے