مشینوں کو قانون چاھئے انسان کو ضمیر


 مشینوں کو قانون چاہیے، انسان کو ضمیر

یورپ نے حال ہی میں ایک ایسا قانون منظور کیا ہے جس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ہے۔ یہ قانون مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی کے استعمال اور اس کے اثرات کےو قابو میں لانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ نظام جو انسانوں کی آزادی، پرائیویسی یا بنیادی حقوق کے لئے خطرہ بنے گا، مکمل طور پر ممنوع قرار دیا جائے گا۔ اگر کوئی کمپنی اس پابندی کو توڑے گی تو اس پر سخت جرمانہ عائد ہوگا: یا تو کمپنی کی کل سالانہ آمدنی کا سات فیصد یا پینتیس ملین یورو، جو بھی زیادہ ہو۔ یہ شرط اس بات کی علامت ہے کہ یورپ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہا ہے اور چاہتا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی انسانی خدمت کے لئے استعمال ہو، نہ کہ غلامی اور منافع خوری کے لئے۔
یہ خبر سن کر لمحہ بھر کے لئے خوشی ہوئی۔ جیسے کسی قصائی نے اعلان کر دیا ہو کہ اب وہ سبزیاں کاٹے گا۔ لیکن فوراً ہی ضمیر نے سوال کیا: کیا واقعی انسان اتنا ذمہ دار ہو گیا ہے کہ مشینوں کو اخلاق سکھا سکے؟ کیا وہ خود کبھی اپنی طاقت کو قانون اور انصاف کے تابع لایا ہے؟ کیا تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ طاقتور نے اپنی طاقت کو کمزور کے حق میں استعمال کیا؟
یورپی یونین کا یہ قانون بظاہر روشنی کی ایک کرن ہے لیکن اس کے پیچھے وہی پرانا کھیل بھی جاری ہے: طاقت، منافع اور قابو۔ انسان صدیوں سے یہی کھیل کھیلتا آیا ہے۔ کبھی نوآبادیات کے نام پر، کبھی معیشت کے نام پر، اور اب ٹیکنالوجی کے نام پر۔ آج یہ کہا جا رہا ہے کہ مشینوں کو قابو میں لایا جائے گا لیکن کیا خود انسان آزاد ہے ظلم کرنے سے؟ جھوٹ بولنے سے؟ زمین کو لوٹنے اور فضا کو زہر آلود کرنے سے؟
اس قانون میں کہا گیا ہے کہ جو نظام انسانوں کی نگرانی کرے گا، ان کے جذبات کو قابو میں لے گا یا ان کے رویوں پر اثر ڈالے گا، اس پر پابندی ہوگی۔ یہ اعلان اپنی جگہ خوش آئند ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ انسان جو صدیوں سے دوسروں کی زمینوں، زبانوں اور ضمیروں پر قبضہ کرتا آیا ہے، اب اچانک کیسے اخلاقیات کا استاد بن گیا؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہی طاقتور اقوام جنہوں نے ایٹم بم بنائے، دو عالمی جنگیں لڑیں اور ماحول کو زہر آلود کیا، آج ہمیں بتا رہی ہیں کہ مشینوں سے بچو؟
قانون میں ایک اور شرط ہے کہ ہر اے آئی سسٹم بتائے گا کہ وہ کس طرح کام کرتا ہے، کس ڈیٹا پر تربیت پائی، اور اس کے خطرات کیا ہیں۔ بظاہر یہ شفافیت کا وعدہ ہے لیکن اس کی حقیقت پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی قاتل عدالت میں کہے: میں نے چاقو کس زاویے سے تیز کیا، وار کیسے کیا اور کس لمحے کیا۔ چونکہ میں نے رپورٹ دے دی ہے اس لئے میں بے قصور ہوں۔ یہ منطق قانون کی نہیں بلکہ دکھاوے کی ہے۔ یہ ضابطہ اصل میں طاقتور کو بچانے کا ذریعہ بنتا ہے کیونکہ ضمیر کی جگہ ہمیشہ ضابطہ رکھا جاتا ہے اور ضابطہ طاقت کے زیر اثر بدلتا رہتا ہے۔
انسان کی غیر ذمہ داری کی تاریخ بہت لمبی ہے۔ یہی وہ انسان ہے جس نے ایٹم بم بنائے، زمین پر تباہی پھیلائی، تاریخ کو جھوٹ میں لپیٹا، اور اب وہی مشینوں کو اخلاق کا درس دے رہا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی چور بچوں کو ایمانداری کا سبق دے۔ دنیا بھر میں آج بھی اسلحہ کے کارخانے چل رہے ہیں، معاشی نظام غریب کو نچوڑ رہا ہے، ماحولیاتی تباہی بدستور جاری ہے، مگر قانون صرف مشینوں کے لئے ہے، انسان کے لئے نہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت خود کیا ہے؟ یہ ایک طاقت ہے، ایک اوزار ہے۔ اگر اس کا استعمال انسانیت کی خدمت کے لئے ہو تو یہ نعمت ہے، اگر قابو اور منافع کے لئے ہو تو یہ لعنت ہے۔ یورپی قانون اسی طاقت کو قابو میں لانے کی کوشش ہے۔ لیکن کیا قانون کافی ہے؟ کیا قانون ضمیر کی جگہ لے سکتا ہے؟ اگر ضمیر زندہ نہ ہو تو قانون ہمیشہ طاقتور کے ہاتھ میں ہتھیار بن جاتا ہے۔
اس قانون کے اثرات روشنی بھی رکھتے ہیں اور سائے بھی۔ روشنی یہ ہے کہ خطرناک نظاموں پر پابندی ہوگی، شفافیت اور جوابدہی بڑھے گی، انسانی حقوق کا تحفظ ہوگا اور عوامی اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ سائے یہ ہیں کہ تحقیق کی رفتار کم ہو سکتی ہے، چھوٹے ادارے پیچھے رہ سکتے ہیں، خوف کی فضا پیدا ہو سکتی ہے اور تخلیقی آزادی محدود ہو سکتی ہے۔
یہاں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ ذمہ داری کا فیصلہ کون کرے گا؟ ریاستیں؟ سائنسدان؟ کمپنیاں؟ یا ہم سب؟ قانون ساز ضابطہ بناتے ہیں، سائنسدان نظام تخلیق کرتے ہیں، مگر شاعر اور دانشور ضمیر کو جگاتے ہیں۔ اور شاید یہی وہ لمحہ ہے جب انسان کو رک کر سوچنا چاہیے کہ وہ حقیقت میں ذمہ دار ہے یا صرف قانون کے پردے میں اپنی غیر ذمہ داری کو چھپا رہا ہے۔
پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے اس قانون میں کئی سبق ہیں۔ اگر یورپ اپنی ٹیکنالوجی کے لئے اتنے سخت اصول بنا رہا ہے تو ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ کیا ہمارے تعلیمی ادارے نوجوانوں کو صرف صارف بنا رہے ہیں یا تخلیق کار بھی؟ کیا ہم مصنوعی ذہانت کے میدان میں صرف درآمد پر انحصار کریں گے یا اپنی زبان، اپنی ثقافت اور اپنے مسائل کے مطابق اس کی نئی شکلیں تراشیں گے؟ اگر آج ہم نے تیاری نہ کی تو آنے والے وقت میں صرف استعمال کرنے والے رہ جائیں گے، فیصلہ کرنے والے نہیں۔
یہ قانون ہمارے لئے ایک چیلنج بھی ہے اور موقع بھی۔ چیلنج یہ ہے کہ تحقیق اور سرمایہ کاری کے بغیر ہم پیچھے رہ جائیں گے۔ موقع یہ ہے کہ ہم اپنی مقامی ضروریات کے مطابق اخلاقی اور سائنسی اصول وضع کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستان اور دیگر ممالک نے اپنی نوجوان نسل کو تحقیق، سائنس اور فلسفے کے راستے پر ڈالا تو شاید ہم بھی اپنی تقدیر کے فیصلے خود کر سکیں۔
دنیا کے مستقبل پر ایک اور سوال بھی کھڑا ہوتا ہے: کیا ایسا کوئی عالمی قانون ممکن ہے جو سب کے لئے یکساں ہو؟ یا یہ ضابطے صرف طاقتور خطوں تک محدود رہیں گے؟ اگر عالمی سطح پر ایک متفقہ ضابطہ نہ بنایا گیا تو خطرہ یہ ہے کہ یورپ اپنی ٹیکنالوجی کو اخلاقی قرار دے کر باقی دنیا پر مسلط کرے گا، جبکہ باقی ممالک مجبور ہوں گے کہ اسی کے اصولوں کو مانیں۔
آخرکار مسئلہ قانون کا نہیں، ضمیر کا ہے۔ قانون چاہے جتنا سخت ہو، اگر طاقتور خود کو اس سے بالاتر سمجھے تو سب ضابطے کاغذ کے قفل رہ جاتے ہیں جنہیں طاقت کا ہاتھ بآسانی توڑ دیتا ہے۔ اس لئے اصل سوال یہ ہے کہ انسان کب اپنے ضمیر کو زندہ کرے گا۔ جب تک یہ سوال حل نہیں ہوتا، تب تک مشینوں کو قانون دیا جا سکتا ہے مگر انسان کو نہیں۔ اور جب تک انسان اپنے ضمیر کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہ ہو، تب تک ہر قانون ایک دکھاوا ہی رہے گا۔
یورپی قانون ایک قدم ہے، منزل نہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ مشینوں کو قانون چاہیے، مگر انسان کو ضمیر۔

ندیم احمد فاروقی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مووائیل غار رومانیہ میں 50 لاکھ سالوں سے بند زندگی کی بازگشت

"مرد اور عورت کی دوستی " حقیقت یا فریب

تیراہ کاسانحہ: امن کی تلاش یا لا متناہی جںگ