پاک۔سعودی دفاعی معاہدہ: ایگریمنٹ یا ٹریٹی؟



 پاک۔سعودی دفاعی معاہدہ: ایگریمنٹ یا ٹریٹی؟

پاکستانی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے دریچے پر ایک بار پھر ایک نیا باب کھل چکا ہے۔ اسلام آباد اور ریاض کے درمیان دفاعی معاہدے کی خبریں سامنے آتے ہی حکومتی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ میڈیا پر بیانات، پریس کانفرنسیں اور جلسوں میں نعرے سنائی دینے لگے کہ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ عوامی سطح پر بھی یہ خبر جشن کی صورت اختیار کر گئی، اور سوشل میڈیا پر کئی لوگ اس کو پاکستان کی سفارتی جیت قرار دینے لگے۔
مگر ایک بنیادی سوال ابھی تک تشنہ ہے: یہ معاہدہ آخر ہے کیا؟ کیا یہ صرف ایک ایگریمنٹ ہے یا ایک باقاعدہ ٹریٹی (Treaty)؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ملنے تک نہ صرف عوام بلکہ پالیسی سازوں کی خوشی ادھوری ہے۔ کیونکہ دونوں صورتوں کے اثرات، ذمہ داریاں اور نتائج یکسر مختلف ہیں۔
ایگریمنٹ اور ٹریٹی: ایک بنیادی فرق
اردو میں ایگریمنٹ کو عام طور پر "معاہدہ" یا "عہد نامہ" کہا جاتا ہے۔ یہ نسبتاً نرم نوعیت کی دستاویز ہوتی ہے جس میں دو یا زیادہ فریقین کسی مخصوص معاملے پر اصولی طور پر اتفاق کرتے ہیں۔ ایگریمنٹ عموماً "پالیسی اسٹیٹمنٹ" یا "سمجھوتے" کی شکل اختیار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر دو ممالک کے درمیان تعلیمی تعاون، تجارتی رعایتیں یا فوجی تربیت کی سہولتیں ایگریمنٹ کے ذریعے طے کی جاتی ہیں۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ اگر کوئی ملک کل کو اس سے دستبردار ہونا چاہے تو وہ زیادہ مشکل کے بغیر ایسا کر سکتا ہے۔

اس کے برعکس Treaty ایک ایسا عہدنامہ ہے جو ریاستوں کے درمیان طے پاتا ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت لازمی اور binding حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے نکلنا اتنا آسان نہیں۔ ویانا کنونشن آن لا آف ٹریٹیز (1969) کے مطابق کوئی ملک صرف اسی وقت نکل سکتا ہے جب یا تو اس معاہدے کے اندر خروج کی شق لکھی ہو، یا فریقین باہمی رضامندی سے اجازت دیں، یا کوئی غیر معمولی عالمی تبدیلی پیدا ہو۔ یکطرفہ علیحدگی کی صورت میں نہ صرف قانونی مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ عالمی دباؤ اور پابندیوں کا خطرہ بھی سامنے آ جاتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ agreement سیاسی لچک کا دوسرا نام ہے، جبکہ treaty ریاستی جکڑ بندی کی علامت۔
ایک بار دستخط اور توثیق (ratification) کے بعد ٹریٹی کسی ملک کے لیے ایسا وعدہ بن جاتی ہے جس سے نکلنا نہ صرف مشکل بلکہ عالمی سطح پر اس کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب بات دفاعی یا فوجی تعاون کی ہو تو ٹریٹی صرف سیاسی نہیں بلکہ آئینی اور تزویراتی ذمہ داری بھی بن جاتی ہے۔
پاکستان کے تناظر میں آئینی پہلو
1973ء کے آئینِ پاکستان کے مطابق کسی بھی بین الاقوامی ٹریٹی پر دستخط کرنے کا اختیار بظاہر ایگزیکٹو یعنی حکومت کو حاصل ہے۔ تاہم، ایسے معاہدے جو ملکی سلامتی، دفاعی پالیسی یا مالی ذمہ داریوں پر اثر انداز ہوتے ہوں، ان پر پارلیمنٹ کا اعتماد لینا ایک جمہوری روایت اور اکثر قانونی ضرورت بھی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 90 سے 100 تک ایگزیکٹو اتھارٹی کی وضاحت موجود ہے، جبکہ آرٹیکل 243 میں مسلح افواج کی سپریم کمانڈ صدرِ پاکستان کو دی گئی ہے۔ لیکن دفاعی معاہدات جیسے حساس معاملات میں روایت یہی رہی ہے کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے، جیسا کہ 2015ء میں یمن کے معاملے پر کیا گیا تھا جب سعودی عرب نے پاکستانی فوجی دستے طلب کیے تھے اور پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر انکار کر دیا تھا۔
اس تناظر میں اگر یہ موجودہ پاک۔سعودی دفاعی تعاون محض ایک ایگریمنٹ ہے تو حکومت کے لیے اس پر عملدرآمد یا دستبرداری نسبتاً آسان ہوگا۔ لیکن اگر یہ باقاعدہ ٹریٹی ثابت ہوتی ہے تو پھر نہ صرف پارلیمنٹ کی منظوری ناگزیر ہوگی بلکہ اس کی شرائط بھی عوام اور میڈیا کے سامنے لانا ہوں گی۔ ورنہ آئینی طور پر یہ ایک "بند کمرہ فیصلہ" سمجھا جائے گا جو پارلیمانی جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔
عوامی خوشی اور سیاسی بیانیہ
پاکستانی عوام اور میڈیا کے ایک بڑے حصے نے اس دفاعی تعاون کو ایسے لیا ہے جیسے پاکستان کو ایک نئی ڈھال مل گئی ہو۔ حکومتی بیانات بھی کچھ اسی نوعیت کے ہیں کہ اب پاکستان تنہا نہیں رہا، بلکہ ایک بڑی مسلم طاقت اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ خوشی حقیقت پر مبنی ہے یا صرف بیانیہ کی چمک دمک؟
یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ اگر کل کو امریکہ یا مغربی ممالک دباؤ ڈالیں کہ پاکستان اس معاہدے سے پیچھے ہٹ جائے، تو کیا پاکستان اپنے قومی مفاد کو دیکھے گا یا عالمی طاقتوں کے دباؤ کو؟ اسی طرح اگر بھارت کے ساتھ جنگ چھڑتی ہے، تو کیا واقعی سعودی عرب بھارت کے خلاف عسکری مداخلت کرے گا یا صرف سفارتی بیانات پر اکتفا کرے گا؟ ان سوالوں کے جواب فی الحال معاہدے کی نوعیت اور اس کی خفیہ شقوں میں پوشیدہ ہیں۔
سعودی مفادات اور پاکستان کی ذمہ داریاں
تاریخی طور پر سعودی عرب نے پاکستان سے کئی بار فوجی مدد مانگی ہے۔ 1969ء میں اردن کے "بلیک ستمبر" کے دوران اور 1980ء کی دہائی میں خلیجی کشیدگی کے دوران پاکستان نے سعودی افواج کی تربیت اور سکیورٹی میں مدد فراہم کی۔ مگر 2015ء میں یمن کے معاملے پر پاکستان نے کھل کر انکار کیا اور یہی واقعہ سعودی قیادت کے لیے ایک دھچکہ ثابت ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر کل کو یمن کے ساتھ سعودی عرب کی جنگ دوبارہ شدت اختیار کرتی ہے تو کیا پاکستان اس معاہدے کے تحت مجبور ہوگا کہ اپنی فوج بھیجے؟ یا پھر ایک بار پھر فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی؟ یہی وہ سوال ہے جس پر ابھی تک وضاحت نہیں دی گئی۔
ایٹمی پہلو: ایک نازک نکتہ
پاکستان دنیا کی واحد مسلم ریاست ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ اس لیے عالمی سطح پر یہ خدشہ ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ کہیں پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیار سعودی عرب کو منتقل نہ کر دے۔ اسرائیل کے ساتھ تنازعے کے تناظر میں بھی یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اس دفاعی معاہدے کے تحت پاکستان کو سعودی عرب کے دفاع میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت ہوگی؟ یا پاکستان کسی دباؤ یا خفیہ شق کے تحت اپنے ہتھیار سعودی عرب کے حوالے کرے گا؟
فی الحال اس حوالے سے کوئی شق سامنے نہیں آئی، لیکن یہ اندیشہ اپنی جگہ قائم ہے۔ کیونکہ اگر یہ ٹریٹی ہے اور اس میں "مشترکہ دفاع" کی شق شامل ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کسی تیسرے ملک، چاہے وہ بھارت ہو یا اسرائیل، کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا ساتھ دینے کا پابند ہوگا۔ یہ وہ خطرناک راستہ ہے جس کی وضاحت پاکستانی عوام اور پارلیمنٹ کو لازمی طور پر درکار ہے۔
نتیجہ: خوشی قبل از وقت ہے
یہ بات درست ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات تاریخی، مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر استوار ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب ہیں اور ایک دوسرے کی ضرورت بھی رکھتے ہیں۔ مگر موجودہ صورتحال میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے واضح نہیں کیا کہ یہ تعاون ایگریمنٹ کی شکل میں ہے یا ٹریٹی کی صورت میں۔
اگر یہ ایگریمنٹ ہے تو اس کے اثرات محدود اور وقتی ہوں گے۔ مگر اگر یہ ٹریٹی ہے تو پھر یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک طویل مدتی اور بنیادی تبدیلی ہوگی، جس کے اثرات نہ صرف بھارت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر بلکہ امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات پر بھی مرتب ہوں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اس معاملے کو عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے رکھے تاکہ پاکستان مستقبل میں کسی ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہ اٹھائے جس کا فیصلہ آج جذبات میں کیا گیا ہو۔
آخری بات
خوشیاں منانا اچھی بات ہے، مگر بین الاقوامی معاہدات جذبات سے زیادہ عقل اور تدبر کے تقاضے کرتے ہیں۔ ابھی جشن کا وقت نہیں، بلکہ احتیاط، وضاحت اور شفافیت کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر، کل کو یہ خوشی بوجھ میں بدل سکتی ہے۔

ندیم احمد فاروقی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

مووائیل غار رومانیہ میں 50 لاکھ سالوں سے بند زندگی کی بازگشت

"مرد اور عورت کی دوستی " حقیقت یا فریب