زندگی بیچ چوراہے میں جہاں کرکٹ اور سیاست کا شور ہے
زندگی بیچ چوراہے میں جہاں کرکٹ اور سیاست کا شور ہے.
پاکستان کی گلی کوچوں اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں اگر کوئی دو آوازیں مستقل گونجتی ہیں تو وہ سیاست اور کرکٹ کی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اواز سنائی نہیں دیتی۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ دونوں عناصر ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن چکے ہیں۔ نہ صرف مزاج بلکہ ہماری پوری زندگی بس کرکٹ اور سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کرکٹ اور سیاست کی اس گونج میں کہیں "زندگی" کی آواز تو دب گئی ہے۔ صبح کی ابتدا ہو یا رات کے کھانے کا اختتام، خبروں کا سلسلہ وہیں گھومتا ہے۔ کس نے کس کو نکالا، کون کس کا اتحادی ہے، کون اگلا وزیراعظم بنے گا۔ اور اگر اس میں تھوڑا وقفہ آئے تو فوراً بات ہوتی ہے کرکٹ کی۔ کس نے چھکا مارا، کس نے کیچ چھوڑا، کون سی ٹیم جیتے گی۔ اس ملک کے باسی گویا ان دو میدانوں میں قید ہو چکے ہیں۔
یہاں تک تو خیر بات سمجھ میں آتی ہے۔ ہر ملک کو کسی نہ کسی چیز سے دلچسپی ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب پوری قوم کی سوچ صرف انہی دو موضوعات کے گرد گھومنے لگے۔ اور زندگی کے اصل مسائل ، جیسے مہنگائی، تعلیم، صحت، انصاف، پانی، صاف ہوا سب پس منظر میں چلے جائیں۔
مثال کے طور پر، ایک غریب مزدور جو دن بھر دھوپ میں کام کرتا ہے، شام کو تھکا ہارا گھر آتا ہے، ٹی وی کھولتا ہے تو وہاں صرف چیختے ہوئے سیاستدان یا گرجتے ہوئے کرکٹ اینالسٹ ہوتے ہیں۔ کہیں کوئی پروگرام نہیں کہ جس میں اس کی زندگی کے مسائل پر بات ہو۔ کوئی اینکر نہیں جو اسے بتائے کہ وہ اپنی بیٹی کی تعلیم کیسے جاری رکھ سکتا ہے یا وہ صحت کی سہولتیں کہاں سے حاصل کرے۔
سیاست کا حال تو یہ ہے کہ ہم ہر رات ایک نیا خواب دیکھتے ہیں اور ہر صبح ایک نیا مایوسی کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ لیڈر بدلتے ہیں، پارٹیاں بنتی بگڑتی ہیں، نعروں کے رنگ بدلتے ہیں، مگر عوام کا چولہا وہیں کا وہیں ٹھنڈا رہتا ہے۔
کرکٹ کی دیوانگی بھی اپنی جگہ خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ ہر شکست پر قومی شرمندگی اور ہر فتح پر قومی فخر کا جو طوفان اٹھتا ہے، وہ دراصل اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے پاس خوشی منانے کے مواقع کتنے محدود ہیں۔ ہمیں کچھ ایسا نہیں دیا گیا جس پر اصل میں فخر کیا جا سکے، اس لیے ہم ایک چھکے یا وکٹ پر نعرے لگاتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہماری اجتماعی دانش ایک دھواں دھار مباحثے میں الجھ چکی ہے، جس میں دلائل کم، جذبات زیادہ ہیں۔ ہم سڑکوں پر، مسجدوں میں، دفتروں میں، اور یہاں تک کہ سکولوں میں بھی سیاست یا کرکٹ کی بات کرتے ہیں۔ مگر زندگی کو جینے کے بنیادی اصولوں پر بات کرنے کا وقت یا ہنر نہیں رکھتے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے اصل مسائل کو بھلا کر تفریح یا سیاست میں الجھ جائے تو وہ ترقی کی نہیں، بلکہ تباہی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ اور بدقسمتی سے ہم اسی راہ پر تیز رفتاری سے چل رہے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی توجہ کے توازن کو بحال کریں۔ سیاست پر بات کریں، مگر مہذب انداز میں۔ کرکٹ سے لطف اٹھائیں، مگر اسے قومی تقدیر نہ سمجھیں۔ اور سب سے بڑھ کر، ان مسائل پر بات کریں جو ہماری زندگی کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم نے اپنی ترجیحات کو نہ بدلا، تو پھر صرف وکٹیں ہی نہیں گریں گی بلکہ خواب، امیدیں، اور نسلیں بھی گرتی چلی جائیں گی۔
زندگی بیچ چوراہے میں کھڑی ہے، اور ہم ابھی بھی کرکٹ کی آخری گیند اور سیاست کے اگلے جلسے میں الجھے ہوئے ہیں۔
ندیم احمد فاروقی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں