خاموشی کا شعور — رومی کی روشنی میں ایک جمالیاتی اور اخلاقی تجربہ


خاموشی کا شعور — رومی کی روشنی میں ایک جمالیاتی اور اخلاقی تجربہ

خاموشی ایک آواز ہے۔ ایسی آواز جو سنائی نہیں دیتی، مگر سننے والے کو اندر سے ہلا دیتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب لفظ تھم جاتے ہیں، اور دل بولنے لگتا ہے۔ رومی نے کہا تھا: 
"خاموشی ایک زبان ہے، خدا اس کا عاشق ہے۔"

یہ زبان نہ فارسی ہے، نہ عربی، نہ اردو۔ یہ دل کی زبان ہے۔ وہ زبان جو صرف تب بولی جاتی ہے جب انسان خود سے باہر نکل کر اپنے اندر داخل ہوتا ہے۔  یہ ایک ایسا شعور ہے جو خاموشی میں جنم لیتا ہے، اور خاموشی میں ہی مکمل ہوتا ہے۔

پہلا لمحہ: شور سے فرار

ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر لمحہ شور ہے۔ خبروں کا شور، سوشل میڈیا کا شور، رشتوں کا شور، اور سب سے بڑھ کر—اندر کا شور۔ ہر شخص کچھ کہنا چاہتا ہے، کچھ ثابت کرنا چاہتا ہے، کچھ دکھانا چاہتا ہے۔ مگر رومی ہمیں ایک اور راستہ دکھاتے ہیں:

"جب تم خاموش ہو جاتے ہو، تب تم سننے لگتے ہو۔"

یہ سننا صرف دوسروں کی بات نہیں، بلکہ اپنی روح کی سرگوشی ہے۔ وہ سرگوشی جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کون ہیں، کیا چاہتے ہیں، اور کس چیز سے ڈرتے ہیں۔

دوسرا لمحہ: خاموشی بطور عبادت

رومی کے ہاں خاموشی صرف ایک کیفیت نہیں، بلکہ ایک عبادت ہے۔ وہ لمحہ جب انسان خدا سے ہمکلام ہوتا ہے بغیر کسی لفظ کے۔ جب آنکھیں بند ہوتی ہیں، مگر دل کھل جاتا ہے۔ جب زبان خاموش ہوتی ہے، مگر روح بولتی ہے۔

"خاموشی میں وہ سچ چھپا ہوتا ہے جو لفظوں میں گم ہو جاتا ہے۔"

یہ سچ کبھی ایک آنسو ہوتا ہے، کبھی ایک دعا، اور کبھی ایک معافی۔ خاموشی میں جو سچ بولے جاتے ہیں، وہ اکثر بلند آوازوں سے زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔

تیسرا لمحہ: جمالیاتی تجربہ

خاموشی صرف روحانی نہیں، جمالیاتی بھی ہے۔ ایک شاعر جب نظم لکھتا ہے، تو وہ لفظوں کے درمیان جو خاموشی چھوڑتا ہے، وہی نظم کا اصل حسن ہوتا ہے۔ ایک مصور جب کینوس پر رنگ بکھیرتا ہے، تو وہ خالی جگہیں ہی تصویر کو مکمل کرتی ہیں۔

رومی کی شاعری میں یہ جمالیاتی خاموشی ہر جگہ موجود ہے۔ ان کے اشعار میں جو وقفہ آتا ہے، وہ قاری کو رکنے، سوچنے، اور محسوس کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ جیسے:

"جب لفظ ختم ہو جائیں، تب رقص شروع ہوتا ہے۔"

یہ رقص وہی ہے جو خاموشی میں ہوتا ہے۔ ایک وجد، ایک جمال، ایک دعا۔

چوتھا لمحہ: اخلاقی شعور

خاموشی صرف جمال نہیں، اخلاق بھی ہے۔ وہ شخص جو خاموشی میں سچ سن سکتا ہے، وہی دنیا میں سچ بولنے کا اہل ہوتا ہے۔ رومی ہمیں سکھاتے ہیں کہ خاموشی میں جو سچ دریافت ہوتا ہے، وہی ہمیں بہتر انسان بناتا ہے۔

"تمہاری خاموشی تمہارے کردار کی گواہی ہے۔"

جب ہم کسی کے درد کو خاموشی سے سن لیتے ہیں، تو وہ سننا خود ایک اخلاقی عمل بن جاتا ہے۔ جب ہم کسی کی بات کاٹنے کے بجائے خاموشی سے انتظار کرتے ہیں، تو وہ انتظار خود ایک تربیت بن جاتا ہے۔

پانچواں لمحہ: خاموشی بطور احتجاج

رومی کی خاموشی صرف عبادت نہیں، احتجاج بھی ہے۔ وہ احتجاج جو دنیا کے شور کے خلاف ہے۔ جب سب کچھ بولا جا رہا ہو، مگر کوئی سچ نہ کہا جا رہا ہو، تب خاموشی ایک احتجاج بن جاتی ہے۔ جیسے ایک درویش بازار میں خاموش کھڑا ہو—نہ کچھ بیچتا ہے، نہ کچھ خریدتا ہے، مگر اس کی خاموشی سب سے بلند آواز بن جاتی ہے۔

"خاموشی وہ چیخ ہے جو صرف دل سن سکتا ہے۔"

یہ چیخ کبھی ظلم کے خلاف ہوتی ہے، کبھی جھوٹ کے خلاف، اور کبھی خود اپنے نفس کے خلاف۔

چھٹا لمحہ: تخلیقی وجدان — خاموشی کا دروازہ

میں نے خاموشی کو اس وقت محسوس نہیں کیا جب کوئی قریبی بچھڑ گیا، بلکہ اس وقت محسوس کیا جب کسی اور کی خاموشی میرے اندر گونجنے لگی۔ ایک دوست، ایک درویش، یا شاید ایک کردار جسے میں نے لکھا۔ اور اس کی خاموشی میرے اندر ایسے اتری، جیسے کوئی دعا جو لفظوں کے بغیر قبول ہو جائے۔

رومی کہتے ہیں:
"غم وہ دروازہ ہے جس سے تم اندر داخل ہوتے ہو۔"

میں نے اس دروازے کو خود نہیں کھولا، مگر کسی اور کو کھولتے دیکھا۔ اور وہ منظر، وہ خاموشی اور وہ سچ میرے اندر ایک تحریر بن گئی۔ میں نے لکھنا شروع کیا۔ اور ہر لفظ کے درمیان جو خاموشی تھی، وہی میری اصل تحریر تھی۔ وہی وہ لمحہ تھا جسے میں نے نہیں جیا، مگر جس نے مجھے جینے کا شعور دیا۔

ساتواں لمحہ: سماجی تناظر

آج کی دنیا میں خاموشی کو کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ جو بولتا ہے، وہی سنا جاتا ہے۔ جو چیختا ہے، وہی دکھائی دیتا ہے۔ مگر رومی ہمیں سکھاتے ہیں کہ خاموشی طاقت ہے۔ وہ طاقت جو شور کو شکست دیتی ہے۔ وہ طاقت جو سچ کو زندہ رکھتی ہے۔

"خاموشی وہ تلوار ہے جو بغیر خون بہائے فتح دیتی ہے۔"

اگر ہم سماج میں خاموشی کو دوبارہ عزت دیں، تو شاید ہم بہتر سننے والے بن جائیں۔ اور بہتر سننے والے ہی بہتر بولنے والے ہوتے ہیں۔

آٹھواں لمحہ: رومی کی دعا

رومی کی شاعری ایک مسلسل دعا ہے۔ وہ دعا جو خاموشی میں کی جاتی ہے۔ وہ دعا جو لفظوں کے بغیر قبول ہوتی ہے۔ جیسے

"اے خدا، مجھے وہ خاموشی دے جس میں تیرا سچ سنائی دے۔"

یہ دعا ہر اس شخص کے لیے ہے جو شور سے تھک گیا ہے۔ جو سچ کی تلاش میں ہے۔ جو جمال، اخلاق، اور وجد کو ایک ساتھ محسوس کرنا چاہتا ہے۔

خاموشی کا شعور

خاموشی ایک شعور ہے۔ ایسا شعور جو رومی کی روشنی میں نہ صرف جمالیاتی ہے، بلکہ اخلاقی بھی۔ یہ وہ تجربہ ہے جو انسان کو خود سے، خدا سے، اور دنیا سے جوڑتا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو صرف دل بولتا ہے، اور صرف روح سنتی ہے۔

اگر آپ نے آج کچھ نہ کہا، مگر کچھ محسوس کیا تو سمجھ لیجیے کہ آپ نے خاموشی کا شعور پا لیا۔

ندیم احمد فاروقی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

پرانے وقتوں کے علاج سے آج کے مہنگے علاج تک — کیا بدلا اور کیا ویسا ہی رہا؟

سوشل میڈیا یونیورسٹی — جہاں سب پروفیسر ہیں

زندگی بیچ چوراہے میں جہاں کرکٹ اور سیاست کا شور ہے