ٹھہراؤ کی زبان: سکون


ٹھہراؤ کی زبان

سکون 
کسی پہاڑ کی چوٹی پر نہیں 
کسی بند خانقاہ میں بھی نہیں 
وہ تو 
ایک لمحے کی سانس میں چھپا ہوتا ہے 
جب ہم 
زندگی کو روکنے کی ضد چھوڑ دیتے ہیں۔

نہ کوئی جستجو 
نہ کوئی فتح 
بس ایک نرم سی روانی 
جیسے بارش 
کسی پرانے کمرے کی چھت پر گرتی ہو 
اور ہم 
گننا چھوڑ دیں قطرے۔

ہم نے عمر بھر 
سکون کو تلاش کیا 
راستوں میں، کتابوں میں، چہروں میں 
مگر وہ تو 
ہماری تلاش سے تھک کر 
کسی خاموش گوشے میں بیٹھ گیا تھا۔

سکون 
تلاش سے نہیں آتا 
وہ تو آتا ہے 
جب ہم رک جاتے ہیں 
اور زندگی کو 
اس کی اپنی زبان میں بولنے دیتے ہیں۔

جیسے دریا 
اپنی موجوں کو نہیں روکتا 
جیسے ہوا 
اپنے رخ کو نہیں بدلتی 
ویسے ہی 
زندگی بھی چاہتی ہے 
کہ ہم اسے بس ہونے دیں۔

ٹھہرنا 
کمزوری نہیں 
یہ تو وہ ہنر ہے 
جو وقت کو سننے کی اجازت دیتا ہے 
جو لمحے کو 
اس کی پوری گہرائی میں محسوس کرتا ہے۔

سکون 
کوئی منزل نہیں 
یہ تو وہ کیفیت ہے 
جب ہم خود کو 
منزل بننے دیتے ہیں۔

---
ندیم احمد فاروقی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

پرانے وقتوں کے علاج سے آج کے مہنگے علاج تک — کیا بدلا اور کیا ویسا ہی رہا؟

سوشل میڈیا یونیورسٹی — جہاں سب پروفیسر ہیں

زندگی بیچ چوراہے میں جہاں کرکٹ اور سیاست کا شور ہے