اشاعتیں

دسمبر, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

زنجیروں سے آزادی تک — ایگبو لینڈنگ کی کہانی

تصویر
  زنجیروں سے آزادی تک — ایگبو لینڈنگ کی کہانی تاریخ کے صفحات پر کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جو محض گزرا ہوا زمانہ نہیں رہتے، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے آئینہ بن جاتے ہیں۔ وہ لمحے جب انسان اپنی کمزوریوں کے باوجود اپنی روح کی طاقت دکھاتا ہے، جب وہ ظلم کے سب سے گہرے اندھیروں میں بھی اپنی ذات کا وقار بچانے کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ 1803 میں جارجیا کے ساحل پر پیش آنے والا واقعہ، جسے آج ایگبو لینڈنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ایک ایسا ہی لمحہ تھا۔ یہ واقعہ غلامی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے انسان کی طاقت، اس کی بغاوت، اور آزادی کی شدید خواہش کی یاد دلاتا ہے۔ ایگبو مرد و عورت، جنہیں افریقہ سے پکڑ کر امریکہ لایا گیا تھا، ایک بدنام زمانہ چاول کے کھیت میں بیچنے کے لیے جہاز پر سوار تھے۔ زنجیروں میں جکڑے ہوئے، ان کے جسم غلامی کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے، مگر ان کی روحیں آزاد تھیں۔ جہاز کے نچلے حصے میں، جب انہوں نے اجتماعی طور پر گانا شروع کیا، تو یہ محض ایک دھن نہیں تھی، بلکہ ایک اعلان تھا، ایک بغاوت، ایک وقار کا، اور آزادی کا۔ ملاحوں نے انہیں خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر ان کی آوازیں ایک اجتماعی...

بونڈائی بیچ: جب خوف اترا اور انسانیت کھڑی رہی

تصویر
  بونڈائی بیچ: جب خوف اترا اور انسانیت کھڑی رہی یہودی برادری کے لیے یہ ایک خوشی اور روشنی کا دن تھا۔ دسمبر کی شام، سمندر کے کنارے جلتے چراغ، خاندانوں کی ہنسی، بچوں کی آوازیں اور ایک مذہبی تہوار کی وہ فضا جو صدیوں سے امید، بقا اور روشنی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ سڈنی کے بونڈائی ساحل پر لوگ حانوکا منانے کے لیے جمع تھے۔ وہ تہوار جسے اندھیروں کے مقابلے میں روشنی کی فتح کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چند ہی لمحوں میں یہ روشنی خوف میں بدل جائے گی، اور یہ ساحل تاریخ کے ایک سیاہ باب کا حصہ بن جائے گا۔ اچانک گولی کی آواز نے سمندر کی خاموشی کو چیر دیا۔  دو مسلح حملہ آوروں نے اندھا دھند گولیاں چلانا شروع کر دیں۔ جشن کا ہجوم لمحوں میں بھگدڑ میں بدل گیا۔ لوگ زمین پر لیٹ گئے، کچھ سمندر کی طرف بھاگے، کچھ اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر پناہ ڈھونڈنے لگے۔ اچانک ہر طرف سے انسانی چیخیں پلند ہونے لگیں۔ سائرن بجنے لگے۔ اور  خون اور خوف کا راج شروع ہوا۔ اس حملے کے نتیجے میں اب تک 15 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جبکہ 19 زخمی ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف نمبر نہیں، یہ...

بلوچستان میں نیکرو پالیٹکس کا استعمال

تصویر
  بلوچستان میں نیکرو پالیٹکس کا استعمال خاموشی کو طاقت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی طویل تاریخ بلوچستان میں موت کی سیاست کوئی اچانک پیدا نہیں ہوئی۔  یہ ایک ایسے سیاسی ماحول کی پیداوار ہے جس میں طاقت کی تشکیل اور اختیار کی تقسیم ہمیشہ غیر مساوی رہی۔ اس صوبے کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں طاقت کا سب سے مؤثر ذریعہ ہمیشہ وہی قوتیں رہی ہیں جن کے پاس زندگی اور موت کے فیصلوں کا اختیار ہوتا ہے۔ بلوچستان میں یہی اختیار رفتہ رفتہ ایک مکمل طرزِ حکمرانی میں تبدیل ہوگیا، جسے آج کی سیاسی زبان میں نیکرو پالیٹکس کہا جاتا ہے۔ اس عمل کا ڈھانچہ اتنا سادہ نہیں کہ اسے محض ریاستی جبر یا کسی ایک عسکری کارروائی سے جوڑ دیا جائے۔ یہ ایک مسلسل جاری رہنے والی سیاسی روایت ہے، جس نے مختلف ادوار میں مختلف شکلیں اختیار کیں۔ جس نے معاشرے کے اجتماعی شعور میں خوف کو ایک مستقل تجربے کے طور پر داخل کر دیا۔ بلوچستان کی سیاسی فضا کا پہلا بڑا سانچہ نوآبادیاتی دور میں تیار ہوا تھا۔ انگریزوں نے اس خطے کو ایک ایسی سرحدی پٹی کے طور پر دیکھا جسے مکمل ریاستی ڈھانچے میں ضم کرنے کے بجائے محض ’...

جذباتی ذہانت ، انسان کا باطنی کمپاس

تصویر
  جذباتی ذہانت انسان کا باطنی کمپاس انسان کی روزمرہ زندگی میں جذبات وہ خاموش لہریں ہیں جو اس کے رویّے، سوچ، فیصلوں اور رشتوں کو اندر ہی اندر متحرک رکھتی ہیں۔ مگر ہر انسان ان لہروں کو محسوس کرنے، سمجھنے اور درست سمت دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہی صلاحیت جذباتی ذہانت کہلاتی ہے، ایک ایسی قوت جو عقل، تدبّر اور دل کی گہرائی کو ایک لڑی میں پرو دیتی ہے۔ جذباتی ذہانت کی اصطلاح بظاہر نئی دکھائی دیتی ہے، لیکن اس کا تصور انسان جتنا قدیم ہے۔ صوفیا جب باطنی نظر کی بات کرتے ہیں، بدھا جب خود آگاہی کو نجات کا راستہ قرار دیتے ہیں، اور رومی جب دل کی زبان کو سمجھنے کی تاکید کرتے ہیں، تو وہ دراصل اسی ذہانت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جدید نفسیات نے اسی قدیم حکمت کو سائنسی زبان میں شناخت دی ہے۔ جذباتی ذہانت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات کی اصل وجہ کو پہچان سکے، ان جذبات کو بے قابو ہونے کے بجائے انہیں اپنی قوت میں بدل سکے، دوسروں کے احساسات کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھے اور رشتوں میں نرمی، حکمت اور احترام برقرار رکھ سکے۔ جب انسان اپنے جذبات کا مالک بن جاتا ہے تو پھر وہ حالات کا غلام نہیں رہتا۔ یہی جذبا...

خیبر پختونخوا نیکرو پالیٹیکس کا ہدف

تصویر
  خیبر پختونخوا  نیکرو پالیٹیکس کا ہدف نیکروپالیٹکس (Necropolitics) کا تصور فرانسیسی-کیمرونی فلسفی ایچائل مبیمْبے (Achille Mbembe) نے 2003 میں دیا تھا نیکرو پالیٹکس ایک ایسے سیاسی تصور کا نام ہے جس میں ریاست، طاقت ور گروہ یا سماجی ڈھانچے یہ طے کرتے ہیں کہ کون زندہ رہنے کا حق رکھتا ہے اور کون نہیں۔ یہ اصطلاح  بنیادی طور پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جدید سماجوں میں طاقت کا ایک غیرمرئی میکانزم موجود ہے جو موت کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ کہیں لوگوں کی زندگیاں غیرضروری قرار دے کر ان پر تشدد روا رکھا جاتا ہے اور کہیں انہیں اپنے نظریات، شناخت یا جغرافیے کی بنیاد پر مٹا دیا جاتا ہے۔ اور کہیں موت کے مستقل خوف کو ایک حکمرانی کے طریقہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں خیبر پختونخوا اس سیاست کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے، جہاں قتل، خاموشی، خوف، پابندی، اور سماجی بلیک میلنگ کو ایک منظم حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس دور میں طاقت اور موت کا اشتراک اتنا واضح ہو چکا ہے کہ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بہت سے حملوں کے پیچھے مقصد کسی شخص کو ...

آتن اور پشتون شناخت

تصویر
  اتن اور پشتون شناخت: پشتون ثقافت پر حملے کا  ایک جائزہ حالیہ دنوں میں ملاکنڈ یونیورسٹی کی ایک تقریب کے دوران پروفیسر ساجد محسود نے طلبہ کے ساتھ پشتون روایتی رقص اتن میں حصہ لیا، جس پر اسلامی جمعیت طلبہ نے اعتراض کیا اور اسے غیر اخلاقی قرار دیا۔ یہ تنازعہ محض ایک رقص کے گرد نہیں گھومتا بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور فکری بحران کی علامت ہے جو پختون سماج میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی تشویشناک سمت کی عکاسی کرتا ہے۔ اتن پشتون ثقافت کا سب سے قدیم اور علامتی رقص ہے، جس کی جڑیں ہزاروں سال پرانی ہیں۔ یہ رقص نہ صرف خوشی، جشن اور تہوار کی علامت ہے بلکہ اجتماعی اتحاد، شناخت اور ثقافتی وقار کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ پشتون قبائل میں اتن مختلف مواقع پر پیش کیا جاتا ہے، جیسے شادی بیاہ، فصل کی کٹائی یا دیگر مقامی تہوار۔ اس رقص میں مرد و خواتین، نوجوان و بوڑھے سب شریک ہو سکتے ہیں اور اس کے حرکات و سروں میں روحانی اور معاشرتی ہم آہنگی چھپی ہوتی ہے۔ اتن صرف رقص نہیں بلکہ ایک ثقافتی متن ہے جس میں قبائلی زندگی، عزم، بہادری اور خوشی کے پہلو شامل ہیں۔ پروفیسر ساجد محسود کی اس تقریب میں شرکت نے سوشل م...

پاکستان کا نیا انسدادِ دہشت گردی قانون: شہری آزادیوں کیلئے نیا امتحان

تصویر
  "پاکستان کا نیا انسدادِ دہشت گردی قانون: شہری آزادیوں کیلئے نیا امتحان" پاکستان میں حال ہی میں قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی انسدادِ دہشت گردی کا نیا قانون ایک ایسے قانونی تجربے کی نمائندگی کرتی ہے جو شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے لیے سنگین امتحان بن سکتی ہے۔ اس قانون کے تحت سیکیورٹی اداروں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو تین ماہ تک بغیر وارنٹ یا مقدمہ کے حراست میں رکھ سکیں اور ضرورت پڑنے پر اس مدت کو مزید تین ماہ تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس قانون کی مدت تین سال کے لیے محدود رکھی گئی ہے، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ وقتی قوانین اکثر مستقل نوعیت اختیار کر جاتے ہیں اور ریاست کے اختیار کو غیر متوازن طریقے سے شہریوں پر لاگو کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ بظاہر یہ قانون دہشت گردی کے سدباب کے لیے بنایا گیا ہے مگر حقیقت میں اس نے سیکیورٹی اداروں کو اتنے وسیع اختیارات دے دیے ہیں کہ اگر ان کا غلط استعمال ہوا تو ملک ایک ایسے دور میں داخل ہو سکتا ہے جہاں شہری آزادی، آئینی حقوق اور جمہوری اداروں کی خودمختاری شدید متاثر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے قوانین کی تاریخ موجو...