بونڈائی بیچ: جب خوف اترا اور انسانیت کھڑی رہی
بونڈائی بیچ: جب خوف اترا اور انسانیت کھڑی رہی
یہودی برادری کے لیے یہ ایک خوشی اور روشنی کا دن تھا۔ دسمبر کی شام، سمندر کے کنارے جلتے چراغ، خاندانوں کی ہنسی، بچوں کی آوازیں اور ایک مذہبی تہوار کی وہ فضا جو صدیوں سے امید، بقا اور روشنی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ سڈنی کے بونڈائی ساحل پر لوگ حانوکا منانے کے لیے جمع تھے۔ وہ تہوار جسے اندھیروں کے مقابلے میں روشنی کی فتح کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چند ہی لمحوں میں یہ روشنی خوف میں بدل جائے گی، اور یہ ساحل تاریخ کے ایک سیاہ باب کا حصہ بن جائے گا۔
اچانک گولی کی آواز نے سمندر کی خاموشی کو چیر دیا۔ دو مسلح حملہ آوروں نے اندھا دھند گولیاں چلانا شروع کر دیں۔ جشن کا ہجوم لمحوں میں بھگدڑ میں بدل گیا۔ لوگ زمین پر لیٹ گئے، کچھ سمندر کی طرف بھاگے، کچھ اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر پناہ ڈھونڈنے لگے۔ اچانک ہر طرف سے انسانی چیخیں پلند ہونے لگیں۔ سائرن بجنے لگے۔ اور خون اور خوف کا راج شروع ہوا۔
اس حملے کے نتیجے میں اب تک 15 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جبکہ 19 زخمی ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف نمبر نہیں، یہ ٹوٹے ہوئے گھر ہیں، ادھوری کہانیاں ہیں، وہ خواب ہیں جو دوبارہ نہیں دیکھے جائیں گے۔ جو لوگ اس دن واپس نہ لوٹ سکے، ان کے اہلِ خانہ کے لیے وقت وہیں رک گیا ہے۔ کوئی باپ اپنے بچے کی تصویر کو دیکھ کر سوال کرتا ہے کہ وہ کیوں بچ نہ سکا، کوئی ماں اب بھی فون کی گھنٹی سننے کی منتظر ہے۔ ان زخمیوں کے لیے بھی زندگی اب پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ کچھ زخم جسم پر ہوتے ہیں اور کچھ روح پر، جو عمر بھر ساتھ رہتے ہیں۔
دہشت گردی کا سب سے بڑا جرم یہی ہوتا ہے کہ وہ خوشی کے لمحوں کو نشانہ بناتی ہے، عبادت اور اجتماع کو قتل گاہ میں بدل دیتی ہے۔ یہ حملہ بھی کسی ایک فرد یا گروہ پر نہیں، بلکہ انسان کے اس یقین پر تھا کہ وہ محفوظ ہے، کہ تہوار منانا جرم نہیں، کہ سمندر کے کنارے خوشی منانا خطرہ نہیں۔ اس دن یہ یقین ٹوٹا۔
ایسے لمحات میں ریاستیں، ادارے اور نظام ایک لمحے کو پیچھے رہ جاتے ہیں، اور انسان اپنے فیصلے کے ساتھ تنہا کھڑا ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ جان بچانے کے لیے بھاگتے ہیں، اور یہ فطری ہے۔ مگر اسی ہجوم میں کبھی کبھار کوئی ایک شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو خوف کے بہاؤ کے الٹ چل پڑتا ہے۔ بونڈائی بیچ پر بھی ایسا ہی ہوا۔
جب ایک حملہ آور فائرنگ کر رہا تھا اور لوگ اپنی جانیں بچانے کی کوشش میں تھے، اسی لمحے ایک عام شہری نے وہ قدم اٹھایا جو غیر معمولی تھا۔ شام سے تعلق رکھنے والے احمد الاحمد، ایک محنت کش انسان ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے پھل فروش ہیں ۔ اور دو بچوں کے باپ ہیں ۔ جس کے پاس نہ کوئی وردی تھی اور نہ کوئی ہتھیار۔ اور نہ ہی کوئی خاص تربیت تھی ۔ انہوں نے ایک حملہ آور پر جھپٹنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ سیکنڈز میں ہوا، مگر اس کے اثرات گھنٹوں، دنوں اور شاید برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
احمد نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر حملہ آور کو قابو کرنے کی کوشش کی۔ گولیاں چل رہی تھیں، خطرہ واضح تھا، مگر وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ اس دوران وہ خود شدید زخمی ہو گئے، ان کے بازو اور ہاتھ پر گولیاں لگیں، مگر انہوں نے حملہ آور کو غیر مسلح کرنے میں کردار ادا کیا۔ اسی لمحے ایک اور حملہ آور بھی موجود تھا، مگر احمد کے اس اقدام نے حالات کا رخ بدل دیا۔ وہ لمحہ جب ایک عام آدمی ایک مسلح شخص کے سامنے ڈٹ جاتا ہے، دراصل انسانیت کی وہ تصویر ہے جسے ہم اکثر کتابوں میں پڑھتے ہیں مگر کم ہی حقیقت میں دیکھتے ہیں۔
بعد میں احمد ہسپتال پہنچے۔ جہاں ان کی سرجری ہوئی۔ اسی دوران دنیا نے ایک اور منظر دیکھا۔ لوگوں کا ردِعمل احمد کے بارے میں بہت ہی زبردست رہا۔ وہ ایک ہیرو کا درجہ اختیار کرگیا۔ نہ صرف آسٹریلیا میں بلکہ آسٹریلیا سے باہر، براعظموں کے پار بھی احمد کی بہادری کی تعریفیں ہونے لگیں۔ ایسے لوگ جو احمد کو نہیں جانتے تھے، جن کا اس ساحل سے کوئی تعلق نہیں تھا، مگر وہ بھی اس کو سراہنے لگے۔ سوشل میڈیا، آن لائن پلیٹ فارمز اور ذاتی عطیات کے ذریعے دنیا بھر سے لوگ احمد کے لیے ڈونیشن دینے لگے۔ کسی نے بڑی رقم دی، کسی نے چھوٹی، مگر ہر عطیہ ایک پیغام تھا، تم اکیلے نہیں ہو۔ تا دم تحریر احمد کیلئے دنیا بھر سے ایک میلین سے زیادہ امریکی ڈالرز جمع ہوچکے ہیں۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
احمد الاحمد اب صرف ایک زخمی شہری نہیں رہے، وہ ایک علامت بن گئے۔ ایک ایسا نام جو اس دن کے اندھیرے میں روشنی کی طرح ابھرا۔ لوگ انہیں ہیرو کہنے اور ماننے لگے۔ یہ لقب کسی سرکاری اعلان کا محتاج نہیں تھا۔ یہ وہ ہیرو ہےجسے عوام نے خود اپنے ضمیر کی بنیاد پر منتخب کیا۔ کسی نے ان کی بہادری کو انسانیت کی فتح کہا، اور کسی نے اسے خوف کے خلاف بغاوت کہا ۔ احمد کے لیے جمع ہونے والی عالمی امداد اس بات کا ثبوت بن گئی کہ دنیا اگرچہ خبروں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے، مگر دل ابھی بھی ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ احمد نے یہ سب کسی تمغے، کسی شہرت یا کسی مالی فائدے کی نیت سے نہیں کیا۔ وہ لمحہ اتنا تیز تھا کہ سوچنے کا وقت ہی نہیں تھا۔ یہی خالص بہادری ہوتی ہے جو بلا حساب، بلا شرط، بلا توقع ہو۔ وہ خود آج بھی ہسپتال کے بستر پر ہیں، مگر ان کا نام اب محفوظ ساحلوں، اخباری سرخیوں اور لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
یہ سانحہ ہمیں ایک تلخ سوال کی طرف بھی لے جاتا ہے
کیا ہم نے نفرت کو بہت زیادہ جگہ دے دی ہے؟ جب تہوار نشانہ بنیں، جب عبادت خوف میں بدلے، تو معاشرہ سیکیورٹی کے مسئلے سے آگے بڑھ کر اخلاقی بحران میں داخل ہو جاتا ہے۔ مگر اسی اندھیرے میں احمد الاحمد جیسے لوگ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ انسانیت ابھی زندہ ہے، بس وہ خاموشی سے سانس لیتی ہے، اور مشکل وقت میں بول اٹھتی ہے۔
یہ کالم ان 15 جانوں کے نام بھی ہے جو اس حملے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ یہ تحریر ان زخمیوں کے لیے دعا بھی ہے، جو جسمانی اور ذہنی اذیت کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ اور یہ کالم اس انسان کے لیے خراجِ تحسین بھی ہے جس نے ہمیں یاد دلایا کہ ہیرو کوئی افسانوی کردار نہیں ہوتا، وہ ہمارے درمیان ہی ہوتا ہے۔ بس کبھی کبھی خود کو پہچاننے کے لیے ایک لمحہ چاہیے ہوتا ہے۔
بونڈائی بیچ کی وہ شام ہمیشہ ایک زخم کے طور پر یاد رکھی جائے گی، مگر اسی شام میں ایک نام ایسا بھی ہے جو امید کے ساتھ جڑا رہے گا۔ احمد الاحمد ایک عام آدمی، جس نے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلہ کیا۔ اور یہ ثابت کر دیا کہ جب تاریخ لکھی جاتی ہے تو وہاں صرف قاتلوں کے نام نہیں ہوتے، وہاں ان لوگوں کے نام بھی ہوتے ہیں جو اندھیرے میں چراغ بننے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
ندیم فاروقی
#BondiJunction
#BondiBeach
#SydneyNews
#AustraliaNews
#CurrentEvents
#BondiStrong
#SydneyStrong
#PrayForBondi
#TogetherWeStand

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں