آتن اور پشتون شناخت
اتن اور پشتون شناخت: پشتون ثقافت پر حملے کا ایک جائزہ
حالیہ دنوں میں ملاکنڈ یونیورسٹی کی ایک تقریب کے دوران پروفیسر ساجد محسود نے طلبہ کے ساتھ پشتون روایتی رقص اتن میں حصہ لیا، جس پر اسلامی جمعیت طلبہ نے اعتراض کیا اور اسے غیر اخلاقی قرار دیا۔ یہ تنازعہ محض ایک رقص کے گرد نہیں گھومتا بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور فکری بحران کی علامت ہے جو پختون سماج میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی تشویشناک سمت کی عکاسی کرتا ہے۔
اتن پشتون ثقافت کا سب سے قدیم اور علامتی رقص ہے، جس کی جڑیں ہزاروں سال پرانی ہیں۔ یہ رقص نہ صرف خوشی، جشن اور تہوار کی علامت ہے بلکہ اجتماعی اتحاد، شناخت اور ثقافتی وقار کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ پشتون قبائل میں اتن مختلف مواقع پر پیش کیا جاتا ہے، جیسے شادی بیاہ، فصل کی کٹائی یا دیگر مقامی تہوار۔ اس رقص میں مرد و خواتین، نوجوان و بوڑھے سب شریک ہو سکتے ہیں اور اس کے حرکات و سروں میں روحانی اور معاشرتی ہم آہنگی چھپی ہوتی ہے۔ اتن صرف رقص نہیں بلکہ ایک ثقافتی متن ہے جس میں قبائلی زندگی، عزم، بہادری اور خوشی کے پہلو شامل ہیں۔
پروفیسر ساجد محسود کی اس تقریب میں شرکت نے سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں دو طرح کے ردعمل پیدا کیے۔ ایک طرف اسلامی جمعیت طلبہ نے اسے غیر اخلاقی اور نامناسب قرار دیا، جبکہ دوسری طرف عوامی تبصرے اور سوشل میڈیا نے اس اقدام کی حمایت کی اور پشتون ثقافت، تعلیم اور مثبت سرگرمیوں کی اہمیت پر زور دیا۔ کئی اہم تبصرے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اتن کسی بھی لحاظ سے گناہ یا غیر اخلاقی عمل نہیں ہے بلکہ ثقافتی خوشی کا مظہر ہے، اور پروفیسر ساجد محسود کو علم، حوصلہ اور ثقافتی اقدار کے تحفظ کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ عوامی ردعمل میں یہ بھی کہا گیا کہ پشتون شناخت، علم اور ثقافت ایک ہی شخصیت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ اتن دشمنی، بغض، حسد یا غیرت کے نام پر تشدد سے ہزار گنا بہتر ہے۔ موسیقی اور رقص کو معاشرے میں امن، انسانیت اور ہم آہنگی کی علامت سمجھا جانا چاہیے، خاص طور پر ایسے خطے میں جو انتہا پسندی سے متاثر رہا ہے۔
گذشتہ چالیس سالوں میں افغانستان میں مذہبی تنظیموں نے منظم انداز میں ثقافتی سرگرمیوں اور تعلیم پر دباؤ ڈالا، جس نے معاشرے کو سخت گیر اور انتہا پسند بنایا۔ شادی بیاہ اور جشن میں موسیقی، رقص اور روایتی تقریبات کو ممنوع قرار دیا گیا، جس سے نہ صرف گٹھن میں اضافہ ہوا بلکہ معاشرتی ہم آہنگی بھی متاثر ہوئی۔ اب یہی رجحان پختونخوا میں کچھ انتھا پسند جماعتوں اور گروہوں کے ایجنڈے کا حصہ بن رہا ہے۔ جہاں ثقافتی سرگرمیوں پر تنقیدی رویہ اور مذہبی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس سے نہ صرف نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتیں دبتی ہیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور ثقافتی شناخت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
ثقافت کسی بھی قوم کی زندگی، شعور اور اجتماعی وقار کی بنیاد ہوتی ہے۔ اتن جیسے رقص کو غیر اخلاقی قرار دینا یا اس پر پابندی لگانا، دراصل پشتون شناخت اور معاشرتی جڑوں پر حملہ ہے۔ معاشرتی دباؤ، تعلیمی اداروں میں مداخلت اور مذہبی شدت پسندی کی حمایت کرنے والے رویے اس حقیقت کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں کہ معاشرہ ثقافتی آزادی اور علمی بصیرت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔
یونیورسٹی کے استاد اور طلبہ کی شرکت ظاہر کرتی ہے کہ تعلیمی ادارے صرف علم کی جگہ نہیں بلکہ ثقافت اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی جگہ بھی ہیں۔ عوامی تبصرے واضح کرتے ہیں کہ معاشرے میں مثبت رویہ اور ثقافتی احترام کی شدید ضرورت ہے۔ معاشرتی گٹھن، مذہبی دباؤ اور تشدد کے رویوں کو چیلنج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر شہری، خاص طور پر تعلیمی اور سیاسی حلقے، رواداری اور ثقافتی احترام کے اصول اپنائیں۔
اتن، پشتون ثقافت کا روایتی، تاریخی اور سماجی رقص، خوشی یا تہوار کی علامت کے ساتھ ساتھ معاشرتی ضابطہ اخلاق، اتحاد اور شناخت کی علامت ہے۔ آج کے دور میں، جب معاشرہ مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے اثرات سے گزر رہا ہے، اس ثقافتی اظہار کی حفاظت صرف ثقافت کی نہیں بلکہ قوم کی بقاء اور سماجی ہم آہنگی کی ضمانت ہے۔ پشتون معاشرے کو چاہیے کہ وہ اپنے نوجوانوں، تعلیمی اداروں اور عوامی سطح پر یہ پیغام دے کہ ثقافت پر پابندی براہ راست قوم پر حملہ ہوتا ہے۔ اور ایسے کسی بھی اقدام کی ہر سطح پر مذمت کرنا چاھئے ۔
ندیم فاروقی


تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں