بلوچستان میں نیکرو پالیٹکس کا استعمال
بلوچستان میں نیکرو پالیٹکس کا استعمال
خاموشی کو طاقت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی طویل تاریخ
بلوچستان میں موت کی سیاست کوئی اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ یہ ایک ایسے سیاسی ماحول کی پیداوار ہے جس میں طاقت کی تشکیل اور اختیار کی تقسیم ہمیشہ غیر مساوی رہی۔ اس صوبے کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں طاقت کا سب سے مؤثر ذریعہ ہمیشہ وہی قوتیں رہی ہیں جن کے پاس زندگی اور موت کے فیصلوں کا اختیار ہوتا ہے۔ بلوچستان میں یہی اختیار رفتہ رفتہ ایک مکمل طرزِ حکمرانی میں تبدیل ہوگیا، جسے آج کی سیاسی زبان میں نیکرو پالیٹکس کہا جاتا ہے۔ اس عمل کا ڈھانچہ اتنا سادہ نہیں کہ اسے محض ریاستی جبر یا کسی ایک عسکری کارروائی سے جوڑ دیا جائے۔ یہ ایک مسلسل جاری رہنے والی سیاسی روایت ہے، جس نے مختلف ادوار میں مختلف شکلیں اختیار کیں۔ جس نے معاشرے کے اجتماعی شعور میں خوف کو ایک مستقل تجربے کے طور پر داخل کر دیا۔
بلوچستان کی سیاسی فضا کا پہلا بڑا سانچہ نوآبادیاتی دور میں تیار ہوا تھا۔ انگریزوں نے اس خطے کو ایک ایسی سرحدی پٹی کے طور پر دیکھا جسے مکمل ریاستی ڈھانچے میں ضم کرنے کے بجائے محض ’’قابلِ انتظام‘‘ رکھا جائے۔ نتیجتاً یہاں ایک ایسا نظام پروان چڑھا جس میں لوگوں کی وفاداریوں سے زیادہ ان کو ’’قابو میں رکھنا‘‘ اہم تھا۔ انگریزی راج کی بنائی ہوئی یہ سوچ بعد میں بھی سیاسی فیصلوں میں نظر ائی۔ آزادی کے بعد ریاست نے اگرچہ اپنے ادارے قائم کیے، مگر حکمرانی کا بنیادی ڈھانچہ وہی رہا جس میں طاقت کو عوامی شمولیت سے زیادہ سیکیورٹی اور نظم و ضبط کے ذریعے برقرار رکھا جاتا ہے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں بعد میں نیکرو پالیٹیکس نے سیاست کا مرکزی کردار اپنایا۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ 1970 کی دہائی سے شروع ہو کر مختلف لہر کی صورت میں آج تک جاری ہے۔ گمشدگی کو اگر انسانی المیے سے ہٹ کر سیاسی زاویے سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل کو بطور سیاسی پیغام استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی فرد کا اچانک غائب ہوجانا، اس کی واپسی کا غیر یقینی امکان، اور اس پورے عمل کی مبہم نوعیت ، یہ سب مل کر خوف اور خاموشی کی فضا پیدا کرتے ہیں۔ جو کسی بھی معاشرے کو نہ صرف مفلوج کرتی ہے بلکہ اس کی اجتماعی بولنے کی صلاحیت کو بھی ختم کر دیتی ہے۔
بلوچستان میں ملنے والی مسخ شدہ لاشیں، نامعلوم مقام پر قید کیے گئے افراد کی کہانیاں، اور برسوں کی عدالتی خاموشی, یہ سب مل کر ایک ایسا ماحول تشکیل دیتے ہیں جس میں موت صرف ایک انجام نہیں بلکہ ایک پیغام بن جاتی ہے۔ یہ پیغام صرف مخالفین کو نہیں دیا جاتا بلکہ پورے معاشرے کو بتایا جاتا ہے کہ طاقت کس کے ہاتھ میں ہے اور اس طاقت کے دائرے میں سوال کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ پیغام اس بات کی مسلسل یاد دہانی ہے کہ زندگی کا اختیار کسی ایک فرد یا جماعت کے پاس نہیں بلکہ ایک ایسے غیر مرئی نظام کے پاس ہے جس کی منطق بھی غیر واضح ہے اور طریقۂ کار بھی۔
تاہم بلوچستان کی نیکرو پالیٹکس کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، یعنی غیر ریاستی مسلح تنظیموں کا کردار۔ ان گروہوں نے بھی اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھنے کے لیے خوف اور موت کے ہتھکنڈوں کو اپنایا۔ ان کے اندرونی نظم میں بھی مخالفین کے خلاف سخت کارروائیاں، ٹارگٹ کلنگ، جبری بھرتی اور ’’غداری‘‘ کے الزامات عام رہے۔ یوں بلوچستان میں موت کی سیاست کا ڈھانچہ یک طرفہ نہیں بلکہ کئی زاوئے لئے ہوئے ہے۔ اس میں ریاستی ادارے بھی شامل ہیں، مسلح تنظیمیں بھی، اور بعض مقامی طاقت کے مراکز بھی جو اپنی برادری یا قبیلے کے اندر اختیار کو برقرار رکھنے کے لیے اسی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام شہری ایک ایسے ماحول میں جیتا ہے جہاں ہر طرف سے خوف کی لہریں آتی رہتی ہیں اور زندگی ایک مستقل غیر یقینی کیفیت میں گزرتی ہے۔
اس پورے ماحول کو برقرار رکھنے میں خاموشی کا کردار بہت اہم ہے۔ بلوچستان میں خاموشی ایک رویہ نہیں بلکہ ایک غیر اعلانیہ سماجی قانون بن چکی ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ کون غائب ہوا، کیوں ہوا، کہاں سے اٹھایا گیا، کس کے ہاتھ میں طاقت ہے، مگر زبانیں بند رہتی ہیں۔ میڈیا بہت سے معاملات پر خبریں دینے سے گریز کرتا ہے. سیاسی جماعتیں احتیاط سے کام لیتی ہیں. سول سوسائٹی محتاط بیانات پر اکتفا کرتی ہے۔ یہ خاموشی کسی کمزوری کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک مسلسل خوف کے زیرِ اثر پیدا ہونے والا اجتماعی ردِعمل ہے۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حالات میں بظاہر مماثلت موجود ہے، لیکن دونوں خطوں میں موت کی سیاست کے محرکات ایک جیسے نہیں۔ خیبر پختونخوا میں یہ کھیل زیادہ تر دہشت گردی، جہادی نیٹ ورکس، اور ریاستی جوابی حکمتِ عملی کے گرد گھومتا ہے۔ یوں وہاں موت ایک جنگی میکانزم کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ دوسری طرف بلوچستان میں یہ معاملہ زیادہ تاریخی اور زیادہ تہہ دار ہے۔ یہاں یہ کھیل قومی شناخت، وسائل کے کنٹرول، سیاسی شرکت کی محرومی، ریاستی شکوک اور عدم مساوات کے تاریخی تجربے سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے بلوچستان میں موت کی سیاست ایک عارضی ردعمل کے بجائے ایک مستقل ڈھانچے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
بلوچستان میں طاقت کا پورا نظام زندگی اور موت کے درمیان ایک غیر مساوی تقسیم قائم کرتا ہے۔ طاقتور حلقے فیصلہ کرتے ہیں کہ کون زندہ رہے گا، کون لاپتہ ہوگا، کون واپس آئے گا، کس کی لاش ملے گی، کس کی نہیں۔ یہ اختیار صرف قانونی یا انتظامی نہیں بلکہ جذباتی، نفسیاتی اور سماجی سطح پر بھی لوگوں پر اثر ڈالنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ شہریوں کی پوری زندگی ایک ایسے نظام کی گرفت میں آ جاتی ہے جس میں سوال کے بجائے خاموشی، احتجاج کے بجائے خوف، اور امید کے بجائے غیر یقینی کی کیفیت عام ہو جاتی ہے۔
یہ صورتحال بلوچستان کو محض ایک سیاسی تنازعہ نہیں بلکہ ایک گہرے سماجی بحران میں بدل دیتی ہے۔ اس بحران کی سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ نسل در نسل منتقل ہوتا جا رہا ہے۔ بچوں کی تربیت خاموشی میں ہوتی ہے، نوجوان غیر یقینی حالات میں بڑے ہوتے ہیں۔ گھر والے اپنے پیاروں کے بارے میں سوال کرنے سے ڈرتے ہیں، اور یوں معاشرہ آہستہ آہستہ بے حسی کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ موت کی سیاست صرف ایک حکمت عملی نہیں رہتی بلکہ یہ ایک ثقافتی تجربہ بن جاتی ہے جو پورے معاشرے کی نفسیات کو بدل دیتا ہے۔
بلوچستان کے بارے میں بات کرنا مشکل اس لیے بھی ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک بیانیے کا نہیں۔ یہاں طاقت کے کئی مراکز ہیں، کئی حقیقتیں ہیں، کئی زخم ہیں، اور ہر زخم کی اپنی تاریخ ہے۔ اس پیچیدگی کو نظر انداز کر کے بلوچستان کو ایک سادہ مسئلہ سمجھنا یا اسے محض ’’سیکیورٹی‘‘ کا سوال قرار دینا اس پورے انسانی بحران کے ساتھ ناانصافی ہے۔
اسی پیچیدہ ماحول میں نیکرو پالیٹکس ایک ایسی حقیقت بن کر سامنے آتی ہے جو نہ صرف لوگوں کے جسموں پر اثر ڈالتی ہے بلکہ ان کے خوابوں، امیدوں اور مستقبل کے تصور تک میں سرایت کر جاتی ہے۔ بلوچ نوجوان جب یہ کہتے ہیں کہ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کل کہاں ہوں گے یا ہوں گے بھی یا نہیں ، تو یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ ایک پورے سیاسی نظام کے وجود کی گواہی ہے۔
بلوچستان کی موت کی سیاست کا سب سے دل خراش پہلو یہی ہے کہ یہاں زندگی اپنے بنیادی انسانی معیار سے محروم ہو چکی ہے۔ انسان اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار کھو چکا ہے اور اس کی جگہ خوف اور دھشت نے لی ہے۔ جب معاشرہ اس مقام پر پہنچ جائے تو وہاں سیاست، ترقی، امن، مذاکرات سب کچھ ثانوی ہو جاتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ بن جاتا ہے کہ معاشرہ کیسے دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ سکتا ہے۔ زندگی کی عزت بحال کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ موت کے اختیار کو غیر مشروط طور پر ریاست سے واپس لیا جائے اور اسے قانون کے تابع کیا جائے۔
یہی وہ نکتہ ہے جو بلوچستان کو خیبر پختونخوا سے مختلف کرتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں خوف کی بنیادیں اگرچہ شدید رہی ہیں، لیکن وہاں زندگی اور موت کے فیصلوں کا محور زیادہ تر جنگی حالات رہے ہیں۔ جبکہ بلوچستان میں یہ اختیار جنگ سے زیادہ تاریخ، شناخت، وسائل اور سیاسی محرومی کے گرد گھومتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نیکرو پالیٹکس ایک عارضی ردعمل کے بجائے ایک ’’سیاسی ثقافت‘‘ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
ندیم فاروقی

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں