پاک افغان نورا کشتی
پاک افغان نورا کشتی
ڈیورنڈ لائن ایک ایسی لکیر ہے جو نہ صرف زمین کو دو حصوں میں بانٹتی ہے بلکہ قوموں کے دلوں اور ذہنوں میں بھی فاصلے پیدا کرتی ہے۔ یہ لکیر 1893 میں برطانوی راج کے دور میں افغانستان اور انڈیا کے درمیان کھینچی گئی تھی۔ یہ ایک عارضی معاہدے کے طور پر کھینچی گئی تھی، مگر تاریخ کے دھندلے اور پیچیدہ حالات نے اسے سرحد کا روپ دے دیا۔ افغانستان نے اسے کبھی بھی رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ لکیر پشتون قوم کی شناخت، قبائلی روابط اور خطے کی سیاست کے درمیان کشمکش کی علامت بن گئی۔ اس لکیر نے نہ صرف جغرافیائی حد مقرر کی بلکہ انسانی جذبات اور سیاسی مفادات کی ایک لکیر بھی کھینچ دی، جو آج بھی روشنی اور دھند کے درمیان کھڑی ہے۔ اس پس منظر میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا ایک لکیر جسے ایک فریق تسلیم نہ کرے، حقیقی طور پر مستقل سرحد بن سکتی ہے؟ تاریخی معاہدات کا وزن آج بھی وہی ہے جو برطانوی راج میں تھا؟ اور جب قبائلی روابط ریاستی سکیورٹی کے تقاضوں سے متصادم ہوں تو توازن کس طرح ممکن ہے؟
جب طالبان دوبارہ افغانستان میں اقتدار میں آئے تو پاکستان نے ان کی حکومت کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا، لیکن مختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھا۔ بین الاقوامی فورمز پر بھی ان کےمعاملے کو اٹھایا گیا اور باقاعدہ تجارت بھی جاری رہی۔ اسی دوران پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی جانب حملوں میں تیزی آئی۔ شہری آبادی سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے نشانہ بننے لگے۔
پاکستان کی سرکاری پالیسی کے مطابق یہ گروہ افغان سرزمین سے پاکستان میں کارروائیاں کرتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ TTP کے شدت پسندوں کو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے نکالیں۔ جواب میں افغان طالبان کہتے ہیں کہ یہ گروہ ماضی میں امریکہ اور عالمی کارروائیوں کے خلاف ان کے ساتھ تھا، اس لیے انہیں ملک سے نکالنا ممکن نہیں۔ افغان طالبان کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر TTP کے خلاف سخت کارروائی کی گئی تو وہ داعش کے ساتھ بھی اتحاد کر سکتے ہیں۔
اس تضاد نے نہ صرف عسکری میدان کو پیچیدہ بنایا بلکہ سیاسی اور عوامی سطح پر بھی شک و شبہ پیدا کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض حلقے TTP کو پاکستان کی پراکسی سمجھتے ہیں۔ اس منظرنامے پر غور کرتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ TTP کی کارروائیوں کو روکنے کا سب سے مؤثر حل کیا ہو سکتا ہے؟ اور جب ایک گروہ کو دونوں اطراف میں عسکری اور سیاسی کردار میں دیکھا جائے تو “پراکسی” لیبل کتنی حقیقت پر مبنی ہو سکتی ہے؟
جب پاکستان میں شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی آگئی تو پاکستان نے افغانستان میں ان کے ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائیاں کیں۔ جواب میں افغان طالبان نے ان حملوں کو اپنی خودمختاری کے خلاف قرار دیا اور پاکستانی اہداف پر حملے کیے۔ موجودہ دنوں میں ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف کشیدگی، فائرنگ اور سرحدی بندشیں عام ہیں۔ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان یہ جھڑپیں صرف بندوقوں اور گولہ باری تک محدود نہیں رہیں، بلکہ ان کے اثرات روزمرہ زندگی، تجارت، اور انسانی تعلقات پر بھی پڑ رہے ہیں۔ یہ کشیدگی کسی بھی وقت چنگاری بن سکتی ہے، مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ لڑائی کس کے مفاد میں ہے اور کس کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ سرحدی بندشیں کس کے مفاد میں ہیں اور روزمرہ زندگی اور تجارت متاثر ہونے کے باوجود امن کے لیے سب سے مؤثر فورس کون سی ہے؟
اسی کشیدگی کے اندر TTP یا پاکستانی طالبان ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی داخلی سیاست اور قبائلی رجحانات بھی اس صورتِ حال میں اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔ جو پشتون قوم پرست برسوں سے “لر او بر یو افغان” کے نعرے لگاتے رہے، وہ اب کھل کر پاکستانی ریاستی بیانیہ کی حمایت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ قبائل جو ماضی میں غیر جانبدار یا طالبان کی طرف مائل رہتے تھے، وہ بھی اس نازک وقت میں سرحد کی پاسداری اور پاکستانی موقف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ ایک نمایاں پہلو ہے جس سے پاکستان کو فائدہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ پشتون قوم پرست اور قبائل اس جنگ میں پاکستانی بیانیہ کے ساتھ ہیں، جو ریاستی موقف کو مضبوط کرتے ہیں اور داخلی استحکام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بدلاؤ عارضی جذبات کی بنا پر ہے یا مستقل سیاسی روایت کی شروعات، یہ سوال کھلا ہے۔ روایتی قبائلی شناخت اور پاکستانی ریاستی بیانیہ کس طرح ہم آہنگ ہو سکتے ہیں؟
اس کھیل میں معدنی وسائل بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ افغانستان میں لیتھیم، کوبالٹ، ریئر ارتھ اور دیگر قیمتی ذخائر عالمی ٹیکنالوجی اور اقتصادی مفادات سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ وسائل نہ صرف خطے کی اقتصادی حالت بدل سکتے ہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی حکمت عملی پر بھی اثر ڈال سکتے ہیں۔ افغانستان کی معدنی ذخائر پر قبضہ، CPEC کے راستے، اور خطے میں موجود فوجی بیسز ایک ساتھ جڑ کر ایک ایسا منظرنامہ تشکیل دیتے ہیں جس میں ہر چھوٹا واقعہ عالمی اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ معدنیات خطے کی جغرافیائی سیاست کو کیسے بدل سکتی ہیں؟ کون سی طاقتیں حقیقی طور پر ان پر کنٹرول چاہتی ہیں؟ اور مقامی لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا؟
عالمی مسابقت بھی اس کھیل کا لازمی جزو ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی باگرام ایئر بیس واپس لینے یا کنٹرول کرنے کی خواہش اور USA-China کشمکش خطے میں اسٹریٹجک مقاصد کے ساتھ جڑ کر منظرنامے کو مزید پیچیدہ بناتی ہیں۔ بڑی طاقتوں کی مداخلت مقامی خودمختاری اور معاملات پر کس طرح اثر ڈال سکتی ہے؟ فوجی موجودگی، بیسز یا معاشی شراکت طویل المدت امن کے لیے مددگار ہیں یا خطرناک؟
اس موجودہ پاک افغان تنازعے سے طالبان کو سیاسی فائدہ مل رہا ہے۔ ان کو نہ صرف بیرون ملک مقیم افغان لبرلز کی حمایت حاصل ہے بلکہ اندرون ملک بھی افغان عوام ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ماضی میں سخت طالبان مخالف تھے، مگر اب کسی نہ کسی وجہ سے، سیاسی یا اقتصادی مفاد، یا خطے میں استحکام کی ضرورت کے پیش نظر، طالبان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس حمایت نے طالبان کی داخلی سیاست کو مضبوط کیا اور عوامی قبولیت میں اضافہ کیا۔ یہ قابل غور بات ہے کہ طالبان کو یہ حمایت کیوں مل گئی؟ کیا اس کے پیچھے کوئی سیاسی ایجنڈا یا مصلحت ہے؟ یا خوف یا مفادات؟ بیرون ملک کمیونٹی کی یہ حمایت طالبان کے فیصلوں اور حکومت پر کس طرح اثر ڈال سکتی ہے؟
یہ وہ نقطہ ہے جو سب سے زیادہ ہائی لائٹ ہے۔ اس جنگ اور کشیدگی سے طالبان کو فائدہ یہ مل رہا ہے کہ ماضی قریب کے مخالفین، لبرل افغان، بیرون ملک اور اندرون ملک، کھل کر طالبان کی حمایت کر رہے ہیں، جس سے حکومت اور افغانستان پر ان کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ ماضی کے مخالفین کی یہ تبدیلی طالبان کی داخلی پالیسی اور افغانستان کے مستقبل پر کیا اثر ڈالے گی؟ اور اس رجحان کے نتیجے میں علاقائی تعلقات کس سمت میں جا سکتے ہیں؟
یہ تمام پہلو مل کر ایک “نورا کشتی” کی تصویر بناتے ہیں۔ ایک ایسا منظر جہاں فوجی کارروائیاں، سیاسی پالیسی، قبائلی رویے، اقتصادی مفادات اور عالمی طاقتیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ ہر نکتہ اپنے ساتھ کھلے سوالات چھوڑتا ہے، لیکن جواب کسی کے پاس نہیں۔ یہ تمام زاویے ایک ساتھ یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ یہ لڑائی کس کے لیے ہے اور کس کے مفاد میں ہے۔
ندیم فاروقی

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں