پاکستان کا نیا انسدادِ دہشت گردی قانون: شہری آزادیوں کیلئے نیا امتحان
"پاکستان کا نیا انسدادِ دہشت گردی قانون: شہری آزادیوں کیلئے نیا امتحان"
پاکستان میں حال ہی میں قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی انسدادِ دہشت گردی کا نیا قانون ایک ایسے قانونی تجربے کی نمائندگی کرتی ہے جو شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے لیے سنگین امتحان بن سکتی ہے۔ اس قانون کے تحت سیکیورٹی اداروں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو تین ماہ تک بغیر وارنٹ یا مقدمہ کے حراست میں رکھ سکیں اور ضرورت پڑنے پر اس مدت کو مزید تین ماہ تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ اس قانون کی مدت تین سال کے لیے محدود رکھی گئی ہے، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ وقتی قوانین اکثر مستقل نوعیت اختیار کر جاتے ہیں اور ریاست کے اختیار کو غیر متوازن طریقے سے شہریوں پر لاگو کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ بظاہر یہ قانون دہشت گردی کے سدباب کے لیے بنایا گیا ہے مگر حقیقت میں اس نے سیکیورٹی اداروں کو اتنے وسیع اختیارات دے دیے ہیں کہ اگر ان کا غلط استعمال ہوا تو ملک ایک ایسے دور میں داخل ہو سکتا ہے جہاں شہری آزادی، آئینی حقوق اور جمہوری اداروں کی خودمختاری شدید متاثر ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں ایسے قوانین کی تاریخ موجود ہے جو نام نہاد قومی مفاد کے نام پر شہریوں کی زندگیوں اور آزادیوں کو محدود کرتے رہے ہیں۔ برصغیر کے برطانوی دور میں بنایا جانے والا فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ایک صدی پرانا قانون تھا جو قبائلی علاقوں میں نافذ رہا اور جس میں Section 40 کی شق کے تحت کسی بھی شخص کو شبہ کی بنیاد پر تین سال تک بغیر مقدمہ قید کیا جا سکتا تھا۔ اپیل کا حق، وکیل کا حق یا ٹرائل کا حق نہیں تھا اور یہ اختیار پولیٹیکل ایجنٹ کے ہاتھ میں تھا۔ پاکستان میں یہ قانون بننے کے بعد بھی قبائلی علاقوں میں نافذ رہا یہاں تک کہ 2018 میں فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کے بعد بالآخر ختم ہوا۔
اس قانون نے لوگوں کو محض شبہ کی بنیاد پر حراست میں رکھنے کا اختیار دیا اور یہی خوف آج کے نئے انسدادِ دہشت گردی قانون کے بارے میں بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ اس قانون کا دوسرا تاریخی حوالہ 2014 میں نافذ ہونے والا دو سالہ انسدادِ دہشت گردی آرڈیننس ہے جس میں حکومت کو محدود مدت کے لیے خصوصی اختیارات دیے گئے تھے۔ انسانی حقوق کے کارکنان نے اس وقت خبردار کیا تھا کہ یہ اختیارات غیر شفاف اور سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں اور ریاستی اداروں کو جوابدہی سے آزاد کر سکتے ہیں۔ یہی خدشات آج بھی نئے قانون کے بارے میں پائے جاتے ہیں۔
قانون کے مطابق اگر کسی شخص کے بارے میں یہ شبہ ہو کہ وہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے تو سیکیورٹی ادارے اسے بغیر وارنٹ گرفتار کر کے نوے دن تک زیر حراست رکھ سکتے ہیں اور اضافی تین ماہ کی توسیع بھی ممکن ہے۔ کاغذ پر کچھ حفاظتی شرائط موجود ہیں جیسے عدالت میں پیشی اور JIT کی رپورٹ، مگر پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ کاغذی شرائط اکثر طاقتور اداروں کے سامنے بے بس رہ جاتی ہیں۔
کسی بھی ریاست میں جب قانون کے نام پر سیکیورٹی اداروں کو وسیع اور بے پناہ اختیارات دیے جاتے ہیں تو ریاست اور شہری کے درمیان عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ عدم توازن پہلے ہی موجود تھا اور اب یہ مزید بڑھ جائے گا۔ جب شہری یہ جان لیں کہ محض شبہ کی بنیاد پر کسی کو بھی اٹھایا جا سکتا ہے تو خوف اور خاموشی کا ماحول قائم ہو جاتا ہے۔ لوگ اپنے خیالات دبانے لگتے ہیں، صحافی سیپف سنسراختیار کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں محتاط ہو جاتی ہیں اور سیاسی اختلاف جرم محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہ ماحول جمہوریت نہیں بلکہ سیکیورٹی اسٹیٹ کی علامت بنتا ہے۔
پاکستان میں جبری لاپتہ افراد کا مسئلہ پہلے سے موجود ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا، کراچی اور دیگر شہری علاقوں میں ایسے کیسز رپورٹ ہوتے رہے ہیں جہاں لوگ گھر سے اٹھائے گئے مہینوں یا سالوں تک غائب رہے۔ اہل خانہ عدالتوں کے چکر لگاتے رہے اور ریاستی اداروں کی طرف سے جواب نہیں ملتا تھا۔ نیا قانون اسی معاملے کو قانونی پردہ فراہم کر سکتا ہے۔ اگر کوئی فرد غائب ہو جائے تو ریاست یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ انسدادِ دہشت گردی کے تحت حراست میں ہے اور JIT تحقیق کر رہی ہے۔ اس سے مسئلہ مزید پیچیدہ اور شہریوں کے لیے خطرناک ہو جائے گا۔
آئین پاکستان شہریوں کو آزادی، ٹرائل کا حق، وکیل کا حق، ثبوت کا حق اور شفاف سماعت فراہم کرتا ہے۔ ایسے قوانین جو بغیر جرم کے حراست کو قانونی بنا دیں بنیادی حقوق کو غیر مؤثر کر دیتے ہیں۔ یہ بنیادی ٹکراؤ پیدا کرتے ہیں کہ ایک طرف ریاست کی سیکیورٹی اور دوسری طرف شہری کی آزادی۔ اگر یہ قانون غلط ہاتھوں میں چلا گیا یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوا تو جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، صحافیوں کے لیے ماحول خطرناک ہو جائے گا، سیاسی مخالفین پر دباؤ بڑھے گا، شہری آزادی محدود ہو جائے گی، عدلیہ مزید کمزور ہو جائے گی، ریاستی ادارے جوابدہ سے دور ہوتے جائیں گے اور عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد کا بحران گہرا ہو جائے گا۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف قوانین کے تاریخی استعمال نے یہ واضح کیا ہے کہ طاقتور اداروں کے ہاتھ میں قانونی اختیارات بڑھنے سے شہری آزادی متاثر ہو سکتی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف سخت قوانین کا مقصد اگر شہریوں کو دبانا یا سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا بن جائے تو ریاست کی مضبوطی کے بجائے کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ اگر قانون کا نشانہ شہری بن جائیں تو دہشت گرد مزید مضبوط اور ریاست مزید کمزور ہوتی ہے۔ پاکستان کو واقعی دہشت گردی کے خلاف مضبوط قانون کی ضرورت ہے، لیکن ایسا قانون جو جمہوری اصولوں، آئینی حدود اور انسانی حقوق کی پاسداری کے اندر رہ کر طاقت فراہم کرے۔
طاقت کا ترازو اگر بہت زیادہ ایک طرف جھک جائے تو تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ریاستیں مضبوط نہیں ہوتیں بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں۔ سیکیورٹی اداروں کو اتنے وسیع اختیارات دینا جو آئین میں دیے گئے انسانی حقوق اور آزادیوں کے خلاف ہوں خطرناک رجحان ہے۔ جمہوری اداروں کی خودمختاری اور عدلیہ کی آزادی محدود ہونا پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر یہ اختیار غلط ہاتھوں میں گیا تو ملک ایک ایسی راہ پر داخل ہو سکتا ہے جہاں سیکیورٹی کی آڑ میں شہریوں کی زندگیوں اور آزادیوں کو محدود کر دیا جائے۔
تاریخ اور موجودہ تجربہ بتاتے ہیں کہ جب بھی طاقت ریاست کے ایک مخصوص ادارے یا چند افراد کے ہاتھ میں مرکوز ہوئی تو نتیجہ جمہوریت کی کمزوری اور شہری حقوق کی پامالی کی صورت میں نکلا ہے۔ اسی لیے اب ضرورت ہے کہ قانون کے نفاذ میں سخت نگرانی، شفافیت اور جمہوری اداروں کی فعال شمولیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ یہ اختیار صرف اصل خطرات کے خلاف استعمال ہو اور عام شہریوں کی بنیادی آزادیوں پر قدغن نہ لگے۔ پاکستان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ سیکیورٹی اور آزادی کے درمیان توازن برقرار رکھے اور طاقت کو صرف خطرات کے خلاف محدود رکھے تاکہ آئندہ نسلیں ایک محفوظ اور آزاد معاشرہ دیکھ سکیں۔
ندیم فاروقی

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں