خیبر پختونخوا نیکرو پالیٹیکس کا ہدف
خیبر پختونخوا نیکرو پالیٹیکس کا ہدف
نیکروپالیٹکس (Necropolitics) کا تصور فرانسیسی-کیمرونی فلسفی ایچائل مبیمْبے (Achille Mbembe) نے 2003 میں دیا تھا
نیکرو پالیٹکس ایک ایسے سیاسی تصور کا نام ہے جس میں ریاست، طاقت ور گروہ یا سماجی ڈھانچے یہ طے کرتے ہیں کہ کون زندہ رہنے کا حق رکھتا ہے اور کون نہیں۔ یہ اصطلاح بنیادی طور پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جدید سماجوں میں طاقت کا ایک غیرمرئی میکانزم موجود ہے جو موت کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ کہیں لوگوں کی زندگیاں غیرضروری قرار دے کر ان پر تشدد روا رکھا جاتا ہے اور کہیں انہیں اپنے نظریات، شناخت یا جغرافیے کی بنیاد پر مٹا دیا جاتا ہے۔ اور کہیں موت کے مستقل خوف کو ایک حکمرانی کے طریقہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں خیبر پختونخوا اس سیاست کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے، جہاں قتل، خاموشی، خوف، پابندی، اور سماجی بلیک میلنگ کو ایک منظم حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس دور میں طاقت اور موت کا اشتراک اتنا واضح ہو چکا ہے کہ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بہت سے حملوں کے پیچھے مقصد کسی شخص کو ختم کرنا نہیں بلکہ ایک معاشرے کی فکری سانسیں روکنا تھا۔
پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نیکرو پالیٹکس صرف موت کا واقعہ نہیں بلکہ موت کی گورننس ہے۔ ایک پورا ماحول ایسا بنا دیا جاتا ہے جہاں اختلاف جرم بن جائے، سیاسی وفاداری سلامتی کی واحد ضمانت ہو۔ خیبر پختونخوا میں اس طرزِ سیاست کا آغاز اچانک نہیں ہوا، بلکہ بتدریج ہوا۔ پہلے نظریات کو مشکوک بنایا گیا، پھر آوازوں کو دبایا گیا۔ پھر مخصوص شناختوں کو ہدف بنایا گیا، اور آخر میں یہ پورا عمل منظم تشدد اور دہشت گردی کی شکل اختیار کر گیا۔
اگر ہم ان دو دہائیوں کا جائزہ لیں تو سب سے پہلا اور بدترین حملہ علم پر ہوا۔ سوات میں جب لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں لگائی گئیں اور اسکول تباہ کیے گئے، تو یہ محض بندوق برداروں کا اقدام نہیں تھا؛ یہ نیکرو پالیٹکس کی پہلی جھلک تھی۔ علم کی موت، ترقی کی موت، اور عورت کی آزادی کی موت۔ اسی ماحول میں 2012 میں لڑکیوں کی تعلیم کی علمبردار ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ اس حملے کا مقصد ایک فرد کو خاموش کرنا نہیں بلکہ پورے معاشرے کو یہ پیغام دینا تھا کہ تعلیم مانگنا بھی موت کو دعوت دینا ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ریاست، سیاست اور سماج سب نے یہ دیکھ لیا کہ موت اب دلیل کا متبادل بن چکی ہے۔
اسی طرح 2017 میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کا انتہائی بہیمانہ قتل اس سیاست کی دوسری شکل تھا۔ یہاں قاتل کوئی نامعلوم افراد نہیں تھے بلکہ وہی نوجوان تھے جنہیں علم، سوال اور تحقیق کے لیے یونیورسٹی بھیجا گیا تھا۔ انہیں اس طرح جذباتی اور ذہنی طور پر ہائی جیک کر دیا گیا تھا کہ اختلافِ رائے کو کفر، اور سوال کو جرم سمجھنے لگے تھے۔ مشال پر حملہ اصل میں اس ذہن سازی کا نتیجہ تھا کہ کسی کو جینے کا حق صرف تب ہے جب وہ طے شدہ بیانیے کے مطابق رہے۔ یہ بھی نیکرو پالیٹکس ہے جہاں موت ریاستی غفلت یا معاشرتی جنون کے ذریعے ایک فیصلہ کن قوت بن جاتی ہے۔
حال ہی میں ملاکنڈ یونیورسٹی میں پروفیسر ساجد محسود کے خلاف جس منظم انداز میں کردار کشی مہم کا آغاز کیا گیا، وہ اسی سلسلے کی نئی کڑی ہے۔ یہاں ابھی قتل نہیں ہوا، مگر اساتذہ کو بدنام کرنا، دھمکیاں دینا اور انہیں سماجی طور پر ختم کرنے کی کوشش کرنا اسی سیاست کا حصہ ہے جس میں کردار، عزت اور ساکھ کو مٹانا بھی "موت" ہی کا ایک سماجی روپ ہے۔ نیکرو پالیٹکس ہمیشہ جسم کو نہیں مارتی۔ بہت دفعہ وہ شخصیت، روزگار، آزادی اور وقار کو مٹا کر انسان کو زندہ لاش بنا دیتی ہے۔
اس سارے منظرنامے میں سب سے بڑا اور مسلسل نشانہ قوم پرست سیاسی جماعتیں رہی ہیں۔ گزشتہ بیس برسوں میں پشتون قوم پرست قیادت کو جس تسلسل کے ساتھ ٹارگٹ کیا گیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ متبادل سیاسی سوچ رکھنے والوں کے لیے اس صوبے میں جینا آسان نہیں رہا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما بشیر احمد بلور کو جب خودکش حملے میں قتل کیا گیا، تو یہ ایک شخص کی ہلاکت نہیں تھی بلکہ پورے سیاسی نظریے کو موت کا پیغام تھا۔ ان کے اہلِ خانہ، ان کے کارکنان اور ان کے ساتھی آج تک اس درد کی گواہی دیتے ہیں کہ سیاسی اختلاف یہاں جان لیوا جرم بن چکا تھا۔
بشیر بلور کے بیٹے ہارون بلور بھی ایک حملے میں مارے گئے۔ اسی طرح ان گنت کارکنان، کونسلرز، انتخابی امیدوار، اور عام ووٹرز دہشت گردی کی نذر ہوئے۔ ان حملوں نے یہ واضح کیا کہ خیبر پختونخوا میں صرف مخالفین کو نہیں بلکہ پورے سیاسی وجود کو خاموش کرنا مقصود تھا۔ یہ بھی نیکرو پالیٹکس ہے جہاں موت کا استعمال کسی مخصوص نظریے کو جگہ دینے اور دوسرے نظریے کو ختم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
قبائلی علاقوں اور ملاکنڈ ڈویژن میں ہزاروں ملک، مشران اور مقامی قیادت کے قتل نے اس سیاست کے جغرافیائی پہلو کو مزید واضح کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے علاقوں کے اجتماعی فیصلوں اور تنازعات کے حل میں بنیادی کردار رکھتے تھے۔ انہیں ختم کرنا صرف افراد کو قتل کرنا نہیں تھا بلکہ پورے سماجی ڈھانچے کو تباہ کرنا تھا۔ جب مقامی قیادت غیرمحفوظ ہو جائے، تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے، اور یہی وہ لمحہ ہے جب طاقت ور گروہ معاشرے پر قبضہ کرتے ہیں۔ نیکرو پالیٹکس ہمیشہ طاقت کا خلا پیدا کرتی ہے اور پھر اس خلا کو خوف سے بھر دیتی ہے۔
خواتین پر پابندیوں کی شکل میں بھی یہی سیاست جاری رہی۔ بہت سے علاقں میں ان کا باہر نکلنا، تعلیم حاصل کرنا، ملازمت کرنا یا اپنی آواز اٹھانا جرم بنا دیا گیا۔ قبائلی علاقوں میں خواتین کو نہ صرف پردے اور چاردیواری کے نام پر محدود کیا گیا بلکہ ان کی بنیادی انسانی آزادیوں کو ایسے قوانین اور روایات کے ذریعے قابو میں رکھا گیا جن کا مقصد انہیں سماج کی مکمل فعال رکن بننے سے روکنا تھا۔ یہ بھی موت کا ایک سماجی انتظام ہے جس میں عورت کی شناخت، خواہش اور مستقبل مار دیا جاتا ہے۔
اسی پس منظر میں خیبر پختونخوا کی موسیقی، رقص، اتن، اور ثقافتی ورثے کو بھی مسلسل نشانہ بنایا گیا۔ شدت پسندوں نے پشتون ثقافت کو فحاشی، بے راہ روی یا غیر اسلامی اقدار کی علامت بنا کر پیش کیا۔ ساز جلائے گئے، ثقافتی میلوں پر پابندی لگی، فنکاروں اور گویوں کو دھمکیاں دی گئیں، اور علاقائی ثقافت کو عملاً جرم بنا دیا گیا۔ ثقافت بھی زندگی ہی کی ایک شکل ہے، اور جب اسے مٹا دیا جائے تو معاشرہ روحانی اور ذہنی موت کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ یہ ثقافتی نیکرو پالیٹکس ہے جس میں انسان جسمانی طور پر زندہ رہتا ہے مگر اپنی پہچان، اپنی تاریخ اور اپنے فن سے محروم ہو جاتا ہے۔
پورے صوبے میں پھیلے اس نظام کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا ہے کہ لوگ خوف کو روزمرہ زندگی کا حصہ سمجھنے لگے ہیں۔ اب گولی کی آواز غیرمعمولی نہیں رہی، بم دھماکے کی خبر چونکا نہیں دیتی، اور کسی پروفیسر، کارکن، طالب علم یا سیاسی رہنما کے قتل پر چند دن بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔ جب موت معمول بن جائے تو یہی نیکرو پالیٹکس کی کامیابی ہوتی ہے جہاں زندگی کو غیرضروری اور موت کو ناگزیر بنا دیا جاتا ہے۔ تاہم یہ کہانی صرف تاریکی تک محدود نہیں۔ خیبر پختونخوا کے عوام نے ہمیشہ مزاحمت بھی کی ہے۔ ملالہ کے والدین نے ہمت نہیں ہاری۔ مشال کے والدین نے سوال اٹھانا نہیں چھوڑا۔ بشیر بلور کا خاندان سیاسی جدوجہد آج بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ فنکار اب بھی ساز اٹھاتے ہیں، نوجوان سوشل میڈیا پر اپنے خواب لکھتے ہیں، اور تعلیمی اداروں میں اب بھی ایسے اساتذہ موجود ہیں جو خوف کے باوجود روشنی کا چراغ جلائے رکھتے ہیں۔
یہی اس صوبے کا اصل حسن ہے۔ موت کی سیاست جتنی بھی طاقت ور ہو، زندگی ہمیشہ اپنی جگہ بناتی ہے۔ نیکرو پالیٹکس کے مقابلے میں خیبر پختونخوا کے لوگ آج بھی اپنے وجود اور اپنی شناخت کا اعلان کرتے ہیں۔ مگر یہ اعلان تبھی مضبوط ہوگا جب ہم اس سیاست کو پہچانیں اور اس کی مذمت کریں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ سمجھیں کہ زندگی کا حق کسی گروہ، جماعت یا نظریے کا عطا کردہ نہیں بلکہ یہ بنیادی انسانی حق ہے جس کی حفاظت ہر حال میں ضروری ہے۔
ندیم فاروقی

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں