ہم کتنے چھوٹے ہیں، اور کتنے قیمتی
ہم کتنے چھوٹے ہیں، اور کتنے قیمتی
کارل ساگان بیسویں صدی کے ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جو سائنس دان ہونے کے باوجود عام انسان کی زبان میں بات کرنا جانتے تھے۔ وہ کوئی خشک پروفیسر نہیں تھا جو مشکل اصطلاحات میں الجھا دے، بلکہ ایسا شخص تھا جو ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں کی بات کرتے ہوئے بھی انسان کے دل تک پہنچ جاتا تھا۔ 1934 میں امریکا میں پیدا ہونے والا ساگان ماہر فلکیات، مصنف اور استاد تھا، مگر اس کی اصل پہچان یہ تھی کہ اس نے سائنس کو کتابوں اور تجربہ گاہوں سے نکال کر عام لوگوں کے گھروں تک پہنچایا۔ اس کی مشہور کتاب اور ٹی وی سیریز "Cosmos" دراصل کائنات کے ذریعے انسان کو خود اس سے متعارف کرانے کی کوشش تھی۔
کارل ساگان کا فلسفہ کسی ایک جملے میں سمویا نہیں جا سکتا، مگر اگر اس کا خلاصہ کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ انسان خود کو بہت بڑا سمجھتا ہے، حالانکہ وہ کائنات کے سامنے بہت چھوٹا ہے، اور یہی احساس اسے زیادہ ذمہ دار اور زیادہ انسان بنا سکتا ہے۔ ساگان ہمیں آسمان کی طرف دیکھنے کا مشورہ دیتا ہے، اس لیے نہیں کہ ہم زمین سے منہ موڑ لیں، بلکہ اس لیے کہ ہم زمین پر ایک دوسرے کے ساتھ بہتر طریقے سے رہنا سیکھ سکیں۔
وہ کہتا ہے کہ یہ زمین جس پر ہم فخر کرتے ہیں، جس کے لیے ہم لڑتے ہیں، جس پر ہم نفرتیں پالتے ہیں، کائنات میں ایک ننھا سا نقطہ ہے۔ ایک ایسا نقطہ جو اربوں کھربوں ستاروں اور کہکشاؤں کے سمندر میں کہیں گم ہے۔ جب انسان اس حقیقت کو سمجھتا ہے تو اس کا غرور ٹوٹتا ہے۔ ساگان کے نزدیک غرور انسان کی سب سے بڑی بیماری ہے، کیونکہ غرور ہی انسان کو دوسرے انسان کی جان لینے پر آمادہ کرتا ہے۔
ساگان انسان کو حقیر نہیں سمجھتا، جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھ لیتے ہیں۔ وہ صرف یہ کہتا ہے کہ انسان کائنات کا بادشاہ نہیں۔ ہم کائنات کے مالک نہیں، بلکہ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر ہم واقعی کائنات میں اکیلے ہیں، اگر کہیں اور انسان جیسی شعور رکھنے والی مخلوق موجود نہیں، تو پھر ہم بے حد قیمتی ہیں۔ ہماری قدر اس لیے نہیں کہ ہم طاقتور ہیں، بلکہ اس لیے کہ ہم نایاب ہیں۔
یہ بات پاکستانی معاشرے کے لیے بہت اہم ہے۔ جہاں انسان کی جان اکثر نظریے، مسلک، سیاست یا شناخت سے تولی جاتی ہے۔ ساگان کہتا ہے کہ انسان کی قدر اس کے نظریے سے پہلے آتی ہے۔ اگر آپ کسی سے اختلاف رکھتے ہیں تو رکھیں، لیکن اس اختلاف کو اس کی زندگی چھیننے کا جواز نہ بنائیں۔ کیونکہ اگر وہ انسان ختم ہو گیا تو ممکن ہے کہ پوری کائنات میں اس جیسا کوئی اور موجود ہی نہ ہو۔
کارل ساگان سائنس کو مذہب کا دشمن نہیں سمجھتا۔ وہ سائنس کو تجسس کا راستہ سمجھتا ہے۔ اس کے نزدیک سوال کرنا گناہ نہیں بلکہ انسان ہونے کی علامت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو معاشرے سوال سے ڈرتے ہیں، وہ آگے نہیں بڑھتے۔ سوال انسان کو بغاوت نہیں سکھاتا، سوال انسان کو سمجھ عطا کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سوال کو گستاخی سمجھ لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے سوچ جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔
ساگان کا ماننا تھا کہ اخلاق صرف سزا کے خوف سے پیدا نہیں ہوتے۔ اگر انسان اس لیے اچھا ہے کہ اسے جہنم کا ڈر ہے یا قانون کی سزا کا خوف ہے، تو وہ اچھا انسان نہیں بلکہ ایک خوفزدہ انسان ہے۔ اصل اخلاق تب پیدا ہوتے ہیں جب انسان دوسرے انسان کو اپنی طرح نایاب اور قیمتی سمجھنے لگتا ہے۔ جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ سامنے والا بھی اسی ننھی زمین کا مسافر ہے، جو اسی طرح کائنات کے اندھیرے میں روشنی کی تلاش میں ہے۔
کارل ساگان جنگ سے ڈرتا تھا، خاص طور پر ایٹمی جنگ سے۔ وہ کہتا تھا کہ انسان نے پہلی بار ایسی طاقت حاصل کر لی ہے جس سے وہ پوری انسانیت کو خود ہی ختم کر سکتا ہے۔ یہ طاقت عقل کے بغیر خطرناک ہے۔ اگر انسان نے خود کو تباہ کر لیا تو یہ صرف ایک ملک یا ایک قوم کی تباہی نہیں ہوگی، بلکہ کائنات میں شعور کا ایک چراغ بجھ جائے گا۔ ایک ایسا چراغ جس کے دوبارہ جلنے کی کوئی ضمانت نہیں۔
ساگان ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ کائنات ہمیں کچھ نہیں دیتی، نہ انصاف، نہ سزا، نہ انعام۔ یہ ہم ہیں جو اپنی دنیا کو جنت یا جہنم بناتے ہیں۔ اگر ہم نفرت، تعصب اور تشدد کا راستہ چنیں گے تو زمین جہنم بنے گی، اور اگر ہم علم، برداشت اور ہمدردی کا راستہ چنیں گے تو یہی زمین جینے کے قابل بنے گی۔
وہ کہتا ہے کہ کائنات خاموش ہے، اس خاموشی میں ہمیں خود فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس قسم کی مخلوق بننا چاہتے ہیں۔ یہ سوچ مذہب کے خلاف نہیں بلکہ انسان کے حق میں ہے۔ ساگان خدا کے تصور کو رد نہیں کرتا، وہ صرف یہ کہتا ہے کہ اگر خدا نے ہمیں عقل دی ہے تو اس کا استعمال بھی عبادت ہے۔
پاکستان جیسے معاشروں میں ساگان کا فلسفہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہاں جذبات بہت ہیں مگر سوچ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم جلدی نتیجے نکالتے ہیں، جلدی نفرت کرتے ہیں اور جلدی فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ ساگان ہمیں آہستہ ہونے کا درس دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ذرا رکو، ذرا سوچو، ذرا آسمان کو دیکھو، پھر فیصلہ کرو کہ واقعی یہ لڑائی اتنی ضروری ہے یا نہیں۔
کارل ساگان کا پیغام آخر میں بہت سادہ ہے۔ ہم کائنات میں بہت چھوٹے ہیں، مگر ایک دوسرے کے لیے بہت اہم ہیں۔ اگر ہم نے ایک انسان کو سمجھ لیا، ایک انسان کو بچا لیا، ایک انسان کو سن لیا، تو شاید ہم نے کائنات کے مقصد کو تھوڑا سا پورا کر دیا۔
یہ فلسفہ ہمیں یہ نہیں کہتا کہ ہم سب کچھ جان سکتے ہیں۔ یہ ہمیں صرف یہ سکھاتا ہے کہ ہم سب کچھ جاننے کے دعوے سے باز آ جائیں۔ کیونکہ جب انسان یہ مان لیتا ہے کہ وہ مکمل نہیں، تب ہی وہ سیکھنے کے قابل بنتا ہے۔
کارل ساگان کی سوچ دراصل انسان کو انسان سے جوڑنے کی کوشش ہے۔ مذہب سے اوپر، قوم سے اوپر، نظریے سے اوپر۔ ایک ایسی سطح پر جہاں صرف ایک سچ باقی رہ جاتا ہے کہ ہم سب اسی مدھم نیلے نقطے کے مسافر ہیں، اور اگر ہم نے ایک دوسرے کو نہیں سنبھالا تو شاید ہمیں سنبھالنے والا کوئی اور نہیں ہوگا۔
ندیم احمد فاروقی

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں