اشاعتیں

2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

زنجیروں سے آزادی تک — ایگبو لینڈنگ کی کہانی

تصویر
  زنجیروں سے آزادی تک — ایگبو لینڈنگ کی کہانی تاریخ کے صفحات پر کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جو محض گزرا ہوا زمانہ نہیں رہتے، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے آئینہ بن جاتے ہیں۔ وہ لمحے جب انسان اپنی کمزوریوں کے باوجود اپنی روح کی طاقت دکھاتا ہے، جب وہ ظلم کے سب سے گہرے اندھیروں میں بھی اپنی ذات کا وقار بچانے کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ 1803 میں جارجیا کے ساحل پر پیش آنے والا واقعہ، جسے آج ایگبو لینڈنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ایک ایسا ہی لمحہ تھا۔ یہ واقعہ غلامی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے انسان کی طاقت، اس کی بغاوت، اور آزادی کی شدید خواہش کی یاد دلاتا ہے۔ ایگبو مرد و عورت، جنہیں افریقہ سے پکڑ کر امریکہ لایا گیا تھا، ایک بدنام زمانہ چاول کے کھیت میں بیچنے کے لیے جہاز پر سوار تھے۔ زنجیروں میں جکڑے ہوئے، ان کے جسم غلامی کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے، مگر ان کی روحیں آزاد تھیں۔ جہاز کے نچلے حصے میں، جب انہوں نے اجتماعی طور پر گانا شروع کیا، تو یہ محض ایک دھن نہیں تھی، بلکہ ایک اعلان تھا، ایک بغاوت، ایک وقار کا، اور آزادی کا۔ ملاحوں نے انہیں خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر ان کی آوازیں ایک اجتماعی...

بونڈائی بیچ: جب خوف اترا اور انسانیت کھڑی رہی

تصویر
  بونڈائی بیچ: جب خوف اترا اور انسانیت کھڑی رہی یہودی برادری کے لیے یہ ایک خوشی اور روشنی کا دن تھا۔ دسمبر کی شام، سمندر کے کنارے جلتے چراغ، خاندانوں کی ہنسی، بچوں کی آوازیں اور ایک مذہبی تہوار کی وہ فضا جو صدیوں سے امید، بقا اور روشنی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ سڈنی کے بونڈائی ساحل پر لوگ حانوکا منانے کے لیے جمع تھے۔ وہ تہوار جسے اندھیروں کے مقابلے میں روشنی کی فتح کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چند ہی لمحوں میں یہ روشنی خوف میں بدل جائے گی، اور یہ ساحل تاریخ کے ایک سیاہ باب کا حصہ بن جائے گا۔ اچانک گولی کی آواز نے سمندر کی خاموشی کو چیر دیا۔  دو مسلح حملہ آوروں نے اندھا دھند گولیاں چلانا شروع کر دیں۔ جشن کا ہجوم لمحوں میں بھگدڑ میں بدل گیا۔ لوگ زمین پر لیٹ گئے، کچھ سمندر کی طرف بھاگے، کچھ اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر پناہ ڈھونڈنے لگے۔ اچانک ہر طرف سے انسانی چیخیں پلند ہونے لگیں۔ سائرن بجنے لگے۔ اور  خون اور خوف کا راج شروع ہوا۔ اس حملے کے نتیجے میں اب تک 15 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جبکہ 19 زخمی ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف نمبر نہیں، یہ...

بلوچستان میں نیکرو پالیٹکس کا استعمال

تصویر
  بلوچستان میں نیکرو پالیٹکس کا استعمال خاموشی کو طاقت کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی طویل تاریخ بلوچستان میں موت کی سیاست کوئی اچانک پیدا نہیں ہوئی۔  یہ ایک ایسے سیاسی ماحول کی پیداوار ہے جس میں طاقت کی تشکیل اور اختیار کی تقسیم ہمیشہ غیر مساوی رہی۔ اس صوبے کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں طاقت کا سب سے مؤثر ذریعہ ہمیشہ وہی قوتیں رہی ہیں جن کے پاس زندگی اور موت کے فیصلوں کا اختیار ہوتا ہے۔ بلوچستان میں یہی اختیار رفتہ رفتہ ایک مکمل طرزِ حکمرانی میں تبدیل ہوگیا، جسے آج کی سیاسی زبان میں نیکرو پالیٹکس کہا جاتا ہے۔ اس عمل کا ڈھانچہ اتنا سادہ نہیں کہ اسے محض ریاستی جبر یا کسی ایک عسکری کارروائی سے جوڑ دیا جائے۔ یہ ایک مسلسل جاری رہنے والی سیاسی روایت ہے، جس نے مختلف ادوار میں مختلف شکلیں اختیار کیں۔ جس نے معاشرے کے اجتماعی شعور میں خوف کو ایک مستقل تجربے کے طور پر داخل کر دیا۔ بلوچستان کی سیاسی فضا کا پہلا بڑا سانچہ نوآبادیاتی دور میں تیار ہوا تھا۔ انگریزوں نے اس خطے کو ایک ایسی سرحدی پٹی کے طور پر دیکھا جسے مکمل ریاستی ڈھانچے میں ضم کرنے کے بجائے محض ’...

جذباتی ذہانت ، انسان کا باطنی کمپاس

تصویر
  جذباتی ذہانت انسان کا باطنی کمپاس انسان کی روزمرہ زندگی میں جذبات وہ خاموش لہریں ہیں جو اس کے رویّے، سوچ، فیصلوں اور رشتوں کو اندر ہی اندر متحرک رکھتی ہیں۔ مگر ہر انسان ان لہروں کو محسوس کرنے، سمجھنے اور درست سمت دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہی صلاحیت جذباتی ذہانت کہلاتی ہے، ایک ایسی قوت جو عقل، تدبّر اور دل کی گہرائی کو ایک لڑی میں پرو دیتی ہے۔ جذباتی ذہانت کی اصطلاح بظاہر نئی دکھائی دیتی ہے، لیکن اس کا تصور انسان جتنا قدیم ہے۔ صوفیا جب باطنی نظر کی بات کرتے ہیں، بدھا جب خود آگاہی کو نجات کا راستہ قرار دیتے ہیں، اور رومی جب دل کی زبان کو سمجھنے کی تاکید کرتے ہیں، تو وہ دراصل اسی ذہانت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جدید نفسیات نے اسی قدیم حکمت کو سائنسی زبان میں شناخت دی ہے۔ جذباتی ذہانت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات کی اصل وجہ کو پہچان سکے، ان جذبات کو بے قابو ہونے کے بجائے انہیں اپنی قوت میں بدل سکے، دوسروں کے احساسات کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھے اور رشتوں میں نرمی، حکمت اور احترام برقرار رکھ سکے۔ جب انسان اپنے جذبات کا مالک بن جاتا ہے تو پھر وہ حالات کا غلام نہیں رہتا۔ یہی جذبا...

خیبر پختونخوا نیکرو پالیٹیکس کا ہدف

تصویر
  خیبر پختونخوا  نیکرو پالیٹیکس کا ہدف نیکروپالیٹکس (Necropolitics) کا تصور فرانسیسی-کیمرونی فلسفی ایچائل مبیمْبے (Achille Mbembe) نے 2003 میں دیا تھا نیکرو پالیٹکس ایک ایسے سیاسی تصور کا نام ہے جس میں ریاست، طاقت ور گروہ یا سماجی ڈھانچے یہ طے کرتے ہیں کہ کون زندہ رہنے کا حق رکھتا ہے اور کون نہیں۔ یہ اصطلاح  بنیادی طور پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جدید سماجوں میں طاقت کا ایک غیرمرئی میکانزم موجود ہے جو موت کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ کہیں لوگوں کی زندگیاں غیرضروری قرار دے کر ان پر تشدد روا رکھا جاتا ہے اور کہیں انہیں اپنے نظریات، شناخت یا جغرافیے کی بنیاد پر مٹا دیا جاتا ہے۔ اور کہیں موت کے مستقل خوف کو ایک حکمرانی کے طریقہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں خیبر پختونخوا اس سیاست کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے، جہاں قتل، خاموشی، خوف، پابندی، اور سماجی بلیک میلنگ کو ایک منظم حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس دور میں طاقت اور موت کا اشتراک اتنا واضح ہو چکا ہے کہ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بہت سے حملوں کے پیچھے مقصد کسی شخص کو ...

آتن اور پشتون شناخت

تصویر
  اتن اور پشتون شناخت: پشتون ثقافت پر حملے کا  ایک جائزہ حالیہ دنوں میں ملاکنڈ یونیورسٹی کی ایک تقریب کے دوران پروفیسر ساجد محسود نے طلبہ کے ساتھ پشتون روایتی رقص اتن میں حصہ لیا، جس پر اسلامی جمعیت طلبہ نے اعتراض کیا اور اسے غیر اخلاقی قرار دیا۔ یہ تنازعہ محض ایک رقص کے گرد نہیں گھومتا بلکہ معاشرتی، ثقافتی اور فکری بحران کی علامت ہے جو پختون سماج میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی تشویشناک سمت کی عکاسی کرتا ہے۔ اتن پشتون ثقافت کا سب سے قدیم اور علامتی رقص ہے، جس کی جڑیں ہزاروں سال پرانی ہیں۔ یہ رقص نہ صرف خوشی، جشن اور تہوار کی علامت ہے بلکہ اجتماعی اتحاد، شناخت اور ثقافتی وقار کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ پشتون قبائل میں اتن مختلف مواقع پر پیش کیا جاتا ہے، جیسے شادی بیاہ، فصل کی کٹائی یا دیگر مقامی تہوار۔ اس رقص میں مرد و خواتین، نوجوان و بوڑھے سب شریک ہو سکتے ہیں اور اس کے حرکات و سروں میں روحانی اور معاشرتی ہم آہنگی چھپی ہوتی ہے۔ اتن صرف رقص نہیں بلکہ ایک ثقافتی متن ہے جس میں قبائلی زندگی، عزم، بہادری اور خوشی کے پہلو شامل ہیں۔ پروفیسر ساجد محسود کی اس تقریب میں شرکت نے سوشل م...

پاکستان کا نیا انسدادِ دہشت گردی قانون: شہری آزادیوں کیلئے نیا امتحان

تصویر
  "پاکستان کا نیا انسدادِ دہشت گردی قانون: شہری آزادیوں کیلئے نیا امتحان" پاکستان میں حال ہی میں قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی انسدادِ دہشت گردی کا نیا قانون ایک ایسے قانونی تجربے کی نمائندگی کرتی ہے جو شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے لیے سنگین امتحان بن سکتی ہے۔ اس قانون کے تحت سیکیورٹی اداروں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو تین ماہ تک بغیر وارنٹ یا مقدمہ کے حراست میں رکھ سکیں اور ضرورت پڑنے پر اس مدت کو مزید تین ماہ تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس قانون کی مدت تین سال کے لیے محدود رکھی گئی ہے، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ وقتی قوانین اکثر مستقل نوعیت اختیار کر جاتے ہیں اور ریاست کے اختیار کو غیر متوازن طریقے سے شہریوں پر لاگو کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ بظاہر یہ قانون دہشت گردی کے سدباب کے لیے بنایا گیا ہے مگر حقیقت میں اس نے سیکیورٹی اداروں کو اتنے وسیع اختیارات دے دیے ہیں کہ اگر ان کا غلط استعمال ہوا تو ملک ایک ایسے دور میں داخل ہو سکتا ہے جہاں شہری آزادی، آئینی حقوق اور جمہوری اداروں کی خودمختاری شدید متاثر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے قوانین کی تاریخ موجو...

ایلن مسک کا ٹیکنلوجیکل کمیونزم

تصویر
  ایلن مسک کا ٹیکنالوجیکل کمیونزم ایلن مسک کا نام جب بھی لیا جاتا ہے، ذہن فوراً خلائی جہاز، برقی گاڑیاں یا مصنوعی ذہانت کی طرف چلا جاتا ہے، مگر ان کی شخصیت کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جو کم ہی زیر بحث آتا ہے۔ وہ  کبھی کبھار ٹیکنالوجی کے مستقبل کے بارے میں چونکا دینے والے بیانات بھی دیتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے  ایک ایسے ممکنہ معاشی اور سماجی نظام کی بات کی ہے ۔ جہاں انسانی محنت کی ضرورت کم سے کم ہو جائے گی اور مشینیں زیادہ تر کام سنبھال لیں گے۔ ان کے بقول ائندہ دس سے بیس سالوں میں کرنسی کی ضرورت اور استعمال ختم ہو جائیگی ۔ انسانوں کے لئے تمام کام اے ائی بیسڈ روبوٹک مشینیں کریں گی۔ مسک کے مطابق انسان اس وقت ایک ایسے دور کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں بنیادی ضرورتوں کے لیے درکار محنت کم سے کم ہوتی جا ئیگی۔ اور اس طرح انسانوں کو کام کرنے کی لوڈ سے ازادی مل جائیگی۔  ایسے میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مشینیں ہماری نوکریاں لے لیں گی تو ہم کیا کریں گے۔ مسک کا جواب بڑا سادہ ہے: انسان کو پھر وہ کرنا پڑے گا جو وہ اصل میں کرنا چاہتا ہے۔ یعنی تخلیق، تحقیق، علم، سفر، فن، اور وہ تمام سر...

کیا شعور انسان کا تحفہ ہے یا کائنات کا راز

تصویر
  کیا شعور انسان کا تحفہ ہے یا کائنات کا راز اگر کبھی کوئی بڑی آفت یا جنگ انسان کو زمین سے مٹا دے تو کیا ہوگا۔ ویران میدانوں میں صرف ہوا بچے گی اور خاموشی میں ڈوبے ہوئے وہ شہَر جن میں کبھی روشنی کے خواب بستے تھے۔ کتابیں دھول میں سمٹ جائیں گی۔ زبانیں خاموش ہو جائیں گی۔ سوال یہ اٹھے گا کہ انسان نہیں رہے تو کیا شعور بھی ختم ہو جائے گا۔ کیا مصنوعی ذہانت اپنی چلتی سانس روک دے گی یا کسی نئے انداز میں جی اٹھے گی۔ اور اگر انسان کی آنکھ بند ہو جائے تو کیا کائنات بھی معنی سے خالی ہو جائے گی۔ انسانی تاریخ صرف جسمانی ارتقا کی داستان نہیں۔ یہ شعور کی بیداری کا سفر بھی ہے۔ ابتدا میں انسان بقا کی بھوک کے سائے میں چلتا تھا، لیکن وقت نے اس کے اندر ایسے چراغ روشن کیے جنہوں نے زبان کو جنم دیا، یادوں کو محفوظ کیا اور تجربات کو نسلوں تک منتقل کیا۔ وہی لمحہ شعور کا پہلا دروازہ تھا۔ پھر یہی شعور آگے بڑھ کر فن بن گیا، اخلاقیات ہوا، فلسفہ بنا، اور انسان نے کائنات کو معنی دینے کا حوصلہ پیدا کیا۔ ضمیر اور شعور کو ایک سمجھ لینا آسان مگر غلط ہے۔ ضمیر انسانوں کے باہمی رشتوں اور اخلاقی تجربے سے جنم لیتا ہے۔ ا...

زندگی کی واپسی - ایک بات ذاتی تجربہ

تصویر
  زندگی کی واپسی — ایک ذاتی تجربہ آغازِ کہانی — ایک عام خارش، ایک غیر معمولی موڑ 13 اکتوبر کو اچانک جسم میں ایک چھپی ہوئی بے چینی نے سر اُٹھایا۔ پیٹھ، ماتھے اور جسم پر خارش  شروع ہوئی جیسے اندرونی رگوں میں کوئی چھوٹا طوفان دوڑ رہا ہو۔ سوچا، معمولی الرجی ہوگی۔ ایک اینٹی الرجک گولی کھائی ۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ سٹیرائڈ تھی۔ تکلیف کم نہ ہوئی تو میں نے خود ہی Decadron اور Avil کے انجکشن مکس کر کے لگا لیے۔ انجکشن کے بعد سکون ملا، اور میں سو گیا — بے خبر اس بات سے کہ میرے جسم کے اندر ایک خاموش طوفان جنم لے چکا ہے، جیسے ایک شہر میں چھپی ہوئی آگ بھڑک اُٹھی ہو۔ اگلی صبح — خاموشی، مگر خطرناک رات بھر پیشاب کی حاجت محسوس نہ ہوئی۔ میں جو ہر رات چار پانچ بار اٹھتا ہوں، اس بار مکمل سکون میں سویا رہا۔ صبح واش روم گیا، مگر پیشاب نہ آیا۔ پہلے پہل اسے معمولی سمجھا، مگر دن ڈھلتے ڈھلتے جسم بوجھل اور دماغ خالی ہونے لگا۔ شام کو اچانک بیہوش ہو گیا۔ یہ لمحہ ایسا تھا جیسے زندگی نے اپنے ہاتھوں میں ایک چھوٹا سا امتحان تھما دیا ہو، اور میں اس امتحان میں محض ایک ناظر ہوں۔ ہسپتال — ...

جب مصنوعی ذہانت غلط بولنے لگے۔

تصویر
  جب مصنوعی ذہانت غلط بولنے لگے: علم، تحقیق اور اعتماد کا نیا بحران دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ کل تک جو کچھ انسان کی سوچ، تحقیق یا تخیل کی حدوں میں تھا، آج وہ مشینوں کے الگورتھم میں قید ہے۔ مصنوعی ذہانت (AI) اب وہ اصطلاح نہیں رہی جو صرف سائنس دانوں یا انجینئروں کی زبان پر ہو . یہ ہمارے روزمرہ فیصلوں، معلومات، حتیٰ کہ ہمارے یقین تک میں داخل ہو چکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ نظام اتنا قابلِ اعتماد ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں؟ علم اور ڈیٹا کا سمندر — مگر پانی کتنا صاف؟ مصنوعی ذہانت کا پورا ڈھانچہ ڈیٹا پر کھڑا ہے۔ جو کچھ انٹرنیٹ پر موجود ہے، مضامین، کتابیں، خبریں، سوشل میڈیا کے جملے، اور سب کچھ  یہ نظام اسی سے سیکھتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود ہر چیز درست نہیں۔ جب ڈیٹا میں خامی ہو تو نتیجہ بھی خام ہوتا ہے۔ ایسے میں بعض ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کئی ماڈیولز نے موجود ڈیٹا کا بیشتر حصہ استعمال کر لیا ہے۔ اب جب ان سے ایسے سوالات کیے جاتے ہیں جن کا واضح جواب ڈیٹا میں نہیں، تو یہ نظام خود سے فرضی معلومات گھڑنے لگتا ہے  جیسے ہم مصنوعی سچ کہہ سکتے ہیں۔ جب ی...

خاموشی میں پلتی نئی دنیا

تصویر
خاموشی میں پلتی ہوئی نئی دنیا صبح کی روشنی ئیں پہاڑوں سے نہیں، موبائل کی اسکرین سے آتی ہے۔ چائے کی خوشبو کے ساتھ TikTok کی آوازیں، اور تنہائی میں Facebook کے نوٹیفکیشن۔ یہ نئی دنیا ہے جہاں خاموشی بھی مصروف ہے، اور خواب بھی ڈیجیٹل ہو چکے ہیں۔ مگر اس شور میں، کیا ہم خود کو سن پا رہے ہیں؟ کبھی صبح کا آغاز اذان کی آواز سے ہوتا تھا، یا ماں کے ہاتھ کی چائے سے۔ اب الارم بجتا ہے، اسکرین روشن ہوتی ہے، اور انگلیاں بے ساختہ انسٹاگرام کی طرف بڑھتی ہیں۔ یہ تبدیلی صرف عادتوں کی نہیں، روح کی بھی ہے۔ ہم وہی لوگ ہیں، مگر ہماری صبحیں بدل گئی ہیں۔ اور شاید ہماری خاموشیاں بھی۔ موبائل اب صرف رابطے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک دنیا ہے۔ اس میں خواب ہیں، کام ہیں، محبتیں ہیں، اور تنہائیاں بھی ہیں۔ ایک نوجوان جو پہاڑوں میں رہتا ہے، اب دنیا بھر کے کلائنٹس سے بات کرتا ہے۔ ایک لڑکی جو کبھی صرف گھر کی دیواروں تک محدود تھی، اب  ویڈیوز میں نظر  آرہی ہے۔ یہ سب کچھ خوبصورت ہے، مگر اس میں ایک سوال بھی چھپا ہے، کیا ہم اس نئی دنیا میں خود کو کھو رہے ہیں یا پا رہے ہیں؟ خاموشی کا شور خاموشی پہلے تنہائی کی علامت تھ...

رازق بھی، محافظ بھی — کائناتی توازن اور انسانی مرکزیت کا فلسفیانہ تجزیہ

تصویر
  رازق بھی، محافظ بھی — کائناتی  توازن اور انسانی مرکزیت کا فلسفیانہ تجزیہ کائنات کی کارگزاری کو سمجھنے کی انسانی جستجو ہمیشہ دو سوالوں کے گرد گھومتی رہی ہے۔ کیا یہ نظام کسی ماورائی قوت کی مرضی سے چلتا ہے، یا یہ محض فطری قوانین کا نتیجہ ہے؟ یہ سوال مذہب سے زیادہ انسان کی فکری فطرت سے جڑا ہے۔ سوچیے، ایک چیتا پوری قوت سے ہرن پر حملہ کرتا ہے۔ چیتے کے لیے یہ رزق کا لمحہ ہے، اور وہ "رازق" کو یاد کرتا ہے۔ ہرن کے لیے یہ زندگی اور موت کی جنگ ہے، اور وہ "محافظ" سے امید رکھتا ہے۔ نتیجہ کچھ بھی ہو، دونوں اپنے یقین کو سچا سمجھیں گے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسان کسی واقعے کا صرف مشاہدہ نہیں کرتا بلکہ اسے قدر اور مفہوم عطا کرتا ہے۔ انسانی مرکزیت — ایک فکری عادت فلسفے میں “انسانی مرکزیت” سے مراد وہ رویہ ہے جس میں انسان کائنات کو اپنے زاویے سے پرکھتا ہے۔ سترھویں صدی کے فلسفی اسپینوزا نے کہا تھا کہ انسان فطرت کو اپنی خواہشات اور خوف کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ اور پھر انہی جذبات کے مطابق چیزوں کو خیر و شر کے معنی دیتا ہے۔ یوں چیتے کے لیے کامیابی "نعمت" بن جاتی ہے، ...

ٹھہراؤ کی زبان: سکون

ٹھہراؤ کی زبان سکون  کسی پہاڑ کی چوٹی پر نہیں  کسی بند خانقاہ میں بھی نہیں  وہ تو  ایک لمحے کی سانس میں چھپا ہوتا ہے  جب ہم  زندگی کو روکنے کی ضد چھوڑ دیتے ہیں۔ نہ کوئی جستجو  نہ کوئی فتح  بس ایک نرم سی روانی  جیسے بارش  کسی پرانے کمرے کی چھت پر گرتی ہو  اور ہم  گننا چھوڑ دیں قطرے۔ ہم نے عمر بھر  سکون کو تلاش کیا  راستوں میں، کتابوں میں، چہروں میں  مگر وہ تو  ہماری تلاش سے تھک کر  کسی خاموش گوشے میں بیٹھ گیا تھا۔ سکون  تلاش سے نہیں آتا  وہ تو آتا ہے  جب ہم رک جاتے ہیں  اور زندگی کو  اس کی اپنی زبان میں بولنے دیتے ہیں۔ جیسے دریا  اپنی موجوں کو نہیں روکتا  جیسے ہوا  اپنے رخ کو نہیں بدلتی  ویسے ہی  زندگی بھی چاہتی ہے  کہ ہم اسے بس ہونے دیں۔ ٹھہرنا  کمزوری نہیں  یہ تو وہ ہنر ہے  جو وقت کو سننے کی اجازت دیتا ہے  جو لمحے کو  اس کی پوری گہرائی میں محسوس کرتا ہے۔ سکون  کوئی منزل نہیں...

خاموشی کا شعور — رومی کی روشنی میں ایک جمالیاتی اور اخلاقی تجربہ

تصویر
خاموشی کا شعور — رومی کی روشنی میں ایک جمالیاتی اور اخلاقی تجربہ خاموشی ایک آواز ہے۔ ایسی آواز جو سنائی نہیں دیتی، مگر سننے والے کو اندر سے ہلا دیتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب لفظ تھم جاتے ہیں، اور دل بولنے لگتا ہے۔ رومی نے کہا تھا:  "خاموشی ایک زبان ہے، خدا اس کا عاشق ہے۔" یہ زبان نہ فارسی ہے، نہ عربی، نہ اردو۔ یہ دل کی زبان ہے۔ وہ زبان جو صرف تب بولی جاتی ہے جب انسان خود سے باہر نکل کر اپنے اندر داخل ہوتا ہے۔  یہ ایک ایسا شعور ہے جو خاموشی میں جنم لیتا ہے، اور خاموشی میں ہی مکمل ہوتا ہے۔ پہلا لمحہ: شور سے فرار ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر لمحہ شور ہے۔ خبروں کا شور، سوشل میڈیا کا شور، رشتوں کا شور، اور سب سے بڑھ کر—اندر کا شور۔ ہر شخص کچھ کہنا چاہتا ہے، کچھ ثابت کرنا چاہتا ہے، کچھ دکھانا چاہتا ہے۔ مگر رومی ہمیں ایک اور راستہ دکھاتے ہیں: "جب تم خاموش ہو جاتے ہو، تب تم سننے لگتے ہو۔" یہ سننا صرف دوسروں کی بات نہیں، بلکہ اپنی روح کی سرگوشی ہے۔ وہ سرگوشی جو ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کون ہیں، کیا چاہتے ہیں، اور کس چیز سے ڈرتے ہیں۔ دوسرا لمحہ: خاموشی بطور عبادت رو...