اشاعتیں

ستمبر, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سوشل میڈیا یونیورسٹی — جہاں سب پروفیسر ہیں

تصویر
  سوشل میڈیا یونیورسٹی — جہاں سب پروفیسر ہیں دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی نہ ہارورڈ ہے، نہ آکسفورڈ اور نہ ہی کسی مشہور شہر کی کوئی پرانی درسگاہ۔ اصل یونیورسٹی تو وہ ہے جو ہماری جیب میں موجود چھوٹے سے موبائل فون کے اندر چھپی ہے۔ جی ہاں، یہی ہے “سوشل میڈیا یونیورسٹی” جہاں ہر انسان بغیر کسی امتحان یا انٹری ٹیسٹ کے پروفیسر بن سکتا ہے۔ یہ یونیورسٹی بڑی فراخ دل ہے۔ یہاں نہ داخلہ ٹیسٹ ہے، نہ فیس، نہ ہی حاضری کا جھنجھٹ۔ صرف ایک اکاؤنٹ بنائیں، پروفائل پکچر لگائیں، اور آپ اگلے دن سے کلاس لینے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ یہ ادارہ کسی بورڈ یا تعلیمی کمیشن سے رجسٹرڈ نہیں، لیکن دنیا کی سب سے بڑی ڈگریاں یہی بانٹتا ہے۔ “ڈاکٹرآف  لائکس” ، “پروفیسر آف  شیئرز”،  "پروفیسر آف کاپی پیسٹ"، اور “فلاسفر  آف کمنٹس” کی ڈگریاں اس یونیورسٹی سے بہت ہی کم وقت میں مل جاتی ہیں۔ ٹائم لائن بطور کلاس روم اگر آپ سوچتے ہیں کہ اس یونیورسٹی کی عمارت کہاں ہے تو جناب اس کا جواب بہت آسان ہے۔ اس کے لیکچر ہال دراصل آپ کی ٹائم لائن ہیں۔ ہر پوسٹ ایک نیا لیکچر، ہر میم ایک پریکٹیکل اور ہر کمنٹ ایک viva  ex...

ہماری تعلیمی نظام کا ایک جائزہ

تصویر
  " ہماری تعلیمی نظام کا ایک جائزہ" تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا زینہ ہوتی ہے، لیکن ہمارے ہاں تعلیم کا زینہ ایسا ہے کہ چڑھنے والا بندہ یا تو پھسل کر نیچے آ جاتا ہے یا پھر اتنا تھک جاتا ہے کہ خود ہی بیٹھ جاتا ہے۔ اسکول بھیجتے وقت والدین کے خواب آسمان کو چھو رہے ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی بچہ اسکول سے واپسی پر بستے کا وزن گھسیٹ رہا ہوتا ہے، ان کے ارمان بھی بستے کے ساتھ زمین پر رگڑ کھانے لگتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں کتابیں وہی بھاری ہیں، جو کندھوں کے لیے بوجھ اور دماغ کے لیے ہلکی ہوتی ہیں۔ اکثر لگتا ہے کہ بچوں کے اسکول بیگز میں کتابیں نہیں، بلکہ اینٹیں بھری ہیں۔ وزن کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر کوئی بچہ غصے میں بستہ زمین پر دے مارے، تو زمین میں ایک گڑھا پڑ جائے۔ علم کی روشنی کے یہ دیپ اتنے بھاری ہوتے ہیں کہ خود علم بھی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اسے اتنا بوجھ کیوں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اب اگر نصاب کی بات کی جائے، تو یہ وہ جادوئی چیز ہے جس میں تازگی ناپید ہے۔ کچھ کتابیں ایسی ہیں جنہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید علامہ اقبال نے خود چھاپ کر دی ہوں، اور کچھ میں ایسے مضامین ہیں جیسے آج کے...

"ایک شوہر کی کہانی – بیگمات سے معذرت کے ساتھ "۔

تصویر
  "ایک شوہر کی کہانی – بیگمات سے معذرت کے ساتھ " ۔ "شادی وہ لڈو ہے جو کھائے وہ بھی پچھتائے، جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے!" یہ جملہ سنتے ہی کئی "شادی شدہ محاذ کے سپاہی" تلخی سے مسکرا دیتے ہیں، اور کئی غیر شادی شدہ افراد بے گناہ ہرنی کی طرح آنکھیں پھاڑ کر پوچھتے ہیں: "یہ آخر حقیقت ہے یا مبالغہ؟" تو آئیے، ایک شوہر کی مکمل، تفصیلی اور صداقت پر مبنی داستانِ حیات سنتے ہیں، تاکہ ہر کنوارہ اپنی غلطی اور ہر شادی شدہ اپنی قسمت پر غور کر سکے۔ پہلا دن – "خوابوں کی جنت" دلہا جب پہلی بار دلہن کے ساتھ گھر کے انگن  میں آ تا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بادشاہ اپنی ریاست میں واپس آیا ہو۔ سارا خاندان محبت سے دیکھ رہا ہوتا ہے، دوست مبارکبادیں دے رہے ہوتے ہیں، اور بیوی کے چہرے پر معصومیت اور ہلکی سی جھجک ہوتی ہے۔ شوہر دل میں کہتا ہے: "یہ لمحہ زندگی بھر یاد رہے گا!" اور قسمت دل میں ہنستی ہے: "بالکل! خاص طور پر جب بیوی کی فرمائشیں شروع ہوں گی!" پہلا ہفتہ – "محبت کے گلاب" یہ ہفتہ ایسا ہوتا ہے کہ شوہر کو لگتا ہے گویا اس...

پرانے وقتوں کے علاج سے آج کے مہنگے علاج تک — کیا بدلا اور کیا ویسا ہی رہا؟

تصویر
پرانے وقتوں کے علاج سے آج کے مہنگے علاج تک — کیا بدلا اور کیا ویسا ہی رہا؟ انسان کی تاریخ اگر دیکھی جائے تو بیماری اس کا سب سے پرانا دشمن ہے۔ تہذیب کے آغاز سے آج تک انسان نے جس جس محاذ پر جنگ لڑی ہے، ان میں بیماری سب سے زیادہ دیرپا اور سب سے زیادہ سفاک ثابت ہوئی۔ فرق صرف یہ ہے کہ پرانے وقتوں میں انسان بیماری کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتا تھا۔ اور آج وہ اس کے علاج کی قیمت برداشت نہ کر پانے پر مجبور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا صدیوں کا سفر ہمیں بیماری سے آزادی دے سکا، یا ہم محض ایک نئے جال میں پھنس گئے ہیں؟ پرانے وقتوں کی دوا اور دادی نانی کی الماری ہمارے گھروں میں پرانی الماریاں، لکڑی کے صندوقچے اور کونے میں رکھی شیشیاں یاد آتی ہیں۔ ان ہی میں چھوٹی سی بوتل "امرت دھارا" کی رکھی رہتی تھی جسے عرف عام میں امردارہ کہا جاتا تھا۔ یہ ہر مرض کی دوا سمجھی جاتی تھی۔  ذرا سا قطرہ پانی میں ڈال کر پلایا جاتا تو سمجھا جاتا تھا کہ پیٹ درد، نزلہ، سردرد، سب غائب ہو جائیگا ۔ بچپن میں مجھے بھی یہی" امرت دھارا" کئی دفعہ پلایا گیا ہے۔ اس کا کڑوا ذائقہ اور تیز خوشبو اب بھی یاد ہے۔ اس ...

زندگی بیچ چوراہے میں جہاں کرکٹ اور سیاست کا شور ہے

تصویر
  زندگی بیچ چوراہے میں جہاں کرکٹ اور سیاست کا شور ہے. پاکستان کی گلی کوچوں اور سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں اگر کوئی دو آوازیں مستقل گونجتی ہیں تو وہ سیاست اور کرکٹ کی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اواز سنائی نہیں دیتی۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ دونوں عناصر ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن چکے ہیں۔ نہ صرف مزاج بلکہ ہماری پوری زندگی بس کرکٹ اور سیاست کے گرد گھومتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کرکٹ اور سیاست کی اس گونج میں کہیں "زندگی" کی آواز تو دب گئی ہے۔ صبح کی ابتدا ہو یا رات کے کھانے کا اختتام، خبروں کا سلسلہ وہیں گھومتا ہے۔ کس نے کس کو نکالا، کون کس کا اتحادی ہے، کون اگلا وزیراعظم بنے گا۔ اور اگر اس میں تھوڑا وقفہ آئے تو فوراً بات ہوتی ہے کرکٹ کی۔ کس نے چھکا مارا، کس نے کیچ چھوڑا، کون سی ٹیم جیتے گی۔ اس ملک کے باسی گویا ان دو میدانوں میں قید ہو چکے ہیں۔ یہاں تک تو خیر بات سمجھ میں آتی ہے۔ ہر ملک کو کسی نہ کسی چیز سے دلچسپی ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب پوری قوم کی سوچ صرف انہی دو موضوعات کے گرد گھومنے لگے۔ اور زندگی کے اصل مسائل ، جیسے مہنگائی، تعلیم، صحت، انصاف، پانی، صاف ہوا سب پس منظر میں چلے ...

پاک۔سعودی دفاعی معاہدہ: ایگریمنٹ یا ٹریٹی؟

تصویر
  پاک۔سعودی دفاعی معاہدہ: ایگریمنٹ  یا  ٹریٹی؟ پاکستانی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے دریچے پر ایک بار پھر ایک نیا باب کھل چکا ہے۔ اسلام آباد اور ریاض کے درمیان دفاعی معاہدے کی خبریں سامنے آتے ہی حکومتی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ میڈیا پر بیانات، پریس کانفرنسیں اور جلسوں میں نعرے سنائی دینے لگے کہ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ عوامی سطح پر بھی یہ خبر جشن کی صورت اختیار کر گئی، اور سوشل میڈیا پر کئی لوگ اس کو پاکستان کی سفارتی جیت قرار دینے لگے۔ مگر ایک بنیادی سوال ابھی تک تشنہ ہے: یہ معاہدہ آخر ہے کیا؟ کیا یہ صرف ایک ایگریمنٹ ہے یا ایک باقاعدہ ٹریٹی (Treaty)؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ملنے تک نہ صرف عوام بلکہ پالیسی سازوں کی خوشی ادھوری ہے۔ کیونکہ دونوں صورتوں کے اثرات، ذمہ داریاں اور نتائج یکسر مختلف ہیں۔ ایگریمنٹ اور ٹریٹی: ایک بنیادی فرق اردو میں ایگریمنٹ کو عام طور پر "معاہدہ" یا "عہد نامہ" کہا جاتا ہے۔ یہ نسبتاً نرم نوعیت کی دستاویز ہوتی ہے جس میں دو یا زیادہ فریقین کسی مخصوص معاملے پر اصولی طور پر اتفاق کرتے ہیں۔ ا...

چین کا معاشی ماڈل: سوشلزم، کیپٹلزم اور نئی راہیں

تصویر
  چین کا معاشی ماڈل: سوشلزم، کیپٹلزم اور نئی راہیں دنیا کی تاریخ میں چند ہی قومیں ایسی رہی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی تقدیر بدلی بلکہ عالمی نظام کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ چین انہی قوموں میں سے ایک ہے۔ ایک ایسا ملک جس نے غربت، غلامی اور پسماندگی کے سائے سے نکل کر دنیا کی دوسری بڑی معیشت کا مقام حاصل کیا۔ لیکن یہ سفر سیدھا نہیں تھا۔ یہ کہانی ہے نظریات کے ٹکراؤ کی، خوابوں اور حقیقت کے بیچ کشمکش کی۔ اور ایک ایسے ماڈل کی جو سوشلسٹ بھی ہے اور سرمایہ دارانہ بھی، مگر دراصل ان دونوں سے مختلف ہے۔ سوشلسٹ بنیاد: ماؤ کا چین 1949ء میں جب ماؤ زے تنگ نے عوامی جمہوریہ چین کا اعلان کیا تو ملک ایک بکھرا ہوا، کمزور اور غربت زدہ خطہ تھا۔ ماؤ نے کارل مارکس اور لینن کے نظریات سے متاثر ہو کر سوشلسٹ ریاست کی بنیاد رکھی۔ زمین جاگیرداروں سے لے کر کسانوں میں تقسیم ہوئی، صنعتوں کو ریاست نے اپنے کنٹرول میں لیا، اور ایک ایسا نظام قائم کرنے کی کوشش کی گئی جہاں مساوات ہو اور استحصال نہ ہو جائے۔ لیکن حقیقت مختلف نکلی۔ "بڑی چھلانگ" جیسی مہمات نے قحط اور تباہی کو جنم دیا۔ پیداوار گر گئی، لاکھوں لوگ بھوک سے مر گئے، ...

امریکی بیانیہ اور خطے کا بدلتا منظرنامہ: عرب دنیا، اسرائیل، اور ایشیائی طاقتوں کی نئی صف بندی

  امریکی بیانیہ اور خطے کا بدلتا منظرنامہ: عرب دنیا، اسرائیل، اور ایشیائی طاقتوں کی نئی صف بندی انیسویں اور بیسویں صدی کا بیشتر حصہ دنیا کے لیے نوآبادیاتی طاقتوں کے زیر سایہ گزرا۔ برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی قوتیں نہ صرف وسائل کی لوٹ مار میں مصروف رہیں بلکہ سرحدوں کو بھی اس انداز سے تشکیل دیا کہ آنے والی نسلوں تک تنازعات کا سلسلہ قائم رہے۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں بیسویں صدی کے وسط میں مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا کی جغرافیائی تقسیم ہوئی۔ آج ہم 1940 اور 1950 کی دہائیوں کے اسی منظرنامے کے عکس کو دوبارہ ابھرتا دیکھ رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب پرانی نوآبادیاتی طاقتوں کی جگہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے لے لی ہے، جبکہ مشرق سے روس اور چین جیسی بڑی قوتیں بھی اس کھیل میں براہِ راست شریک ہیں۔ اسرائیل کا بڑھتا ہوا کردار مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا کردار کسی راز کی طرح ابھرتا ہوا نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے۔ گزشتہ ہفتوں میں اسرائیل نے ایسے ممالک پر فضائی حملے کیے جن میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ یہ حملے بظاہر دفاعی نوعیت کے قرار دیے جا رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعات خطے کے طاقت کے تواز...

امریکہ-اسرائیل اتحاد اور عرب دنیا کی مجبوریوں کا کھیل

  امریکہ-اسرائیل اتحاد اور عرب دنیا کی مجبوریوں کا کھیل مشرق وسطیٰ کا جغرافیہ نہ صرف تیل کی دولت سے مالا مال ہے بلکہ یہ دنیا کے بڑے اسٹریٹجک تنازعات کا مرکز بھی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ خطہ عالمی سیاست کا ایسا اسٹیج بن گیا جہاں امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کے سائے میں اسرائیل اور عرب دنیا کی سیاست نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ آج بھی مشرق وسطیٰ کی بیشتر پالیسیاں ان طاقتوں کے زیرِاثر ہیں جنہوں نے اس خطے کو اپنی اسٹریٹجک بساط کا حصہ بنا رکھا ہے۔ اسرائیل کا قیام اور ابتدائی امریکی حمایت 1948 میں اسرائیل کا قیام ایک ایسا واقعہ تھا جس نے عالمی طاقتوں کے توازن کو بدل کر رکھ دیا۔ امریکہ نے اسرائیل کو قیام کے فوراً بعد تسلیم کیا اور جلد ہی اسے عسکری اور مالی امداد فراہم کرنا شروع کر دی۔ یہ امداد محض اخلاقی یا انسانی بنیادوں پر نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے ایک واضح اسٹریٹجک سوچ تھی: مشرق وسطیٰ میں امریکہ کو ایک ایسا اتحادی درکار تھا جو خطے میں مغربی مفادات کا محافظ بن سکے۔ امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات میں یہ اعتماد وقت کے ساتھ مزید گہرا ہوتا گیا۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد اسرائیل کی ...

جغرافیہ کی لکیریں اور سامراجی سیاست

  جغرافیے کی لکیریں اور سامراجی وراثت دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کے نقشے پر جو تبدیلیاں آئیں، وہ محض نئی ریاستوں کے قیام یا پرانی سلطنتوں کے زوال کی کہانی نہیں تھیں، بلکہ یہ سامراجی سیاست کے اس کھیل کا شاخسانہ تھیں جس نے نسلوں کی تقدیر طے کر دی۔ ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ وہ خطے تھے جہاں صدیوں پرانی تہذیبیں بستی تھیں، مگر عالمی طاقتوں نے قلم کے ایک ہی وار سے ان کی تاریخ اور معاشرت کو نئے سانچوں میں ڈھال دیا۔ برطانیہ اور فرانس جیسی نوآبادیاتی طاقتیں دوسری جنگ عظیم کے بعد عسکری اور معاشی لحاظ سے کمزور ہوچکی تھیں۔ لیکن کمزوری کے باوجود انہوں نے اپنے نوآبادیاتی علاقوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تقسیم کیا۔ سامراج کا بنیادی فلسفہ یہی تھا کہ ایسے نقشے بنائے جائیں جہاں طاقت کا توازن کبھی کسی ایک کے حق میں نہ جھکے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم ہو یا فلسطین میں اسرائیل کا قیام، ہر فیصلہ جلد بازی اور سیاسی مجبوریوں کے دباؤ میں ہوا۔ تقسیمِ ہند: ایک تاریخی مثال 1947 میں برصغیر کی تقسیم محض مذہبی بنیادوں پر نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے ایک بڑی اسٹریٹجک سوچ بھی کارفرما تھی۔ برطانیہ کے لیے یہ ...

مشینوں کو قانون چاھئے انسان کو ضمیر

تصویر
  مشینوں کو قانون چاہیے، انسان کو ضمیر یورپ نے حال ہی میں ایک ایسا قانون منظور کیا ہے جس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ہے۔ یہ قانون مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی کے استعمال اور اس کے اثرات کےو قابو میں لانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ نظام جو انسانوں کی آزادی، پرائیویسی یا بنیادی حقوق کے لئے خطرہ بنے گا، مکمل طور پر ممنوع قرار دیا جائے گا۔ اگر کوئی کمپنی اس پابندی کو توڑے گی تو اس پر سخت جرمانہ عائد ہوگا: یا تو کمپنی کی کل سالانہ آمدنی کا سات فیصد یا پینتیس ملین یورو، جو بھی زیادہ ہو۔ یہ شرط اس بات کی علامت ہے کہ یورپ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہا ہے اور چاہتا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی انسانی خدمت کے لئے استعمال ہو، نہ کہ غلامی اور منافع خوری کے لئے۔ یہ خبر سن کر لمحہ بھر کے لئے خوشی ہوئی۔ جیسے کسی قصائی نے اعلان کر دیا ہو کہ اب وہ سبزیاں کاٹے گا۔ لیکن فوراً ہی ضمیر نے سوال کیا: کیا واقعی انسان اتنا ذمہ دار ہو گیا ہے کہ مشینوں کو اخلاق سکھا سکے؟ کیا وہ خود کبھی اپنی طاقت کو قانون اور انصاف کے تابع لایا ہے؟ کیا تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ طاقتور نے...

مووائیل غار رومانیہ میں 50 لاکھ سالوں سے بند زندگی کی بازگشت

تصویر
  مووائل غار رومانیہ میں موجود زندگی جو 50 لاکھ سالوں  سے غار میں پنپ رہی پے کے بارے میں میری آزاد نظم۔  زندگی — ایک بازگشت نہ ابتدا کی صدا،  نہ انتہا کا نقش،  بس لمحوں کی لَو میں  جلتی ہوئی ایک گُم نام شمع،  جو نہ بجھتی ہے،  نہ مکمل روشن ہوتی ہے۔ کبھی خلیے کی صورت میں،  کبھی خیال کی چیخ میں،  کبھی آنکھ کے بغیر دیکھتی،  کبھی روشنی میں اندھی۔  کبھی زہر میں سانس لیتی،  کبھی اندھیرے میں رنگ کھو دیتی،  کبھی سوال بن کر،  اور جواب سے انکار کرتی۔ زندگی—  نہ صرف جینے کا نام،  بلکہ مرنے سے پہلے  خود کو پہچاننے کی ضد۔  ایک ضد جو وقت سے لڑتی ہے،  جسم سے نکلتی ہے،  اور شعور کی دہلیز پر جا بیٹھتی ہے۔ وہ جو روشنی کے بغیر زندہ ہے،  وہ جو آنکھوں کے بغیر دیکھتا ہے،  وہ جو آواز کے بغیر بولتا ہے،  وہی زندگی ہے—  جو ہر قید سے آزاد،  مگر ہر لمحے قید میں۔ نہ وقت کی قید،  نہ جسم کی حد،  بس ایک سفر،  جو ہر لمحہ خود کو  نئے قالب می...

سوچنے سے پہلے اجازت لیں۔

  سوچنے سے پہلے اجازت لیں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں تقریباً  40 لاکھ شہریوں کے فون اور دیگر ڈیجیٹل مواصلاتی ذرائع مانیٹر کیے جا رہے ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نگرانی کے لیے جدید آلات اور ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہیں، تاکہ ہر کال، ہر میسج، ہر سوشل میڈیا پوسٹ اور ہر آن لائن سرگرمی زیرِ نگرانی رہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ الات بیرون ملک سے کروڑوں ڈالرز کی ادائیگیاں کر کے خریدیں گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرضوں میں ڈوبے ہوئے ایک ملک کیلئے شہریوں کی جاسوسی کتنا ضروری عمل ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق، یہ عمل شہریوں کی پرائیویسی اور ذاتی آزادی پر گہرا اثر ڈال رہا ہے، اور روزمرہ زندگی کے ہر پہلو میں اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اب تصور کریں کہ آپ اپنے فون پر چیٹ کر رہے ہیں، ایپس کے درمیان سوئچ کر رہے ہیں، اور ہر بار سوچتے ہیں کہ کہیں یہ خیال یا میسج ‘غیر منظور شدہ’ تو نہیں۔ ہر نوٹیفکیشن کی بیپ، ہر ایموجی، ہر پوسٹ، ریاست کی نظر میں ہے۔ یہ سنجیدہ حقیقت طنز کے زاویے سے اتنی absurd لگتی ہے کہ شہری خود بھی کبھی مسکرا دیتے ہیں۔ لیکن یہی مسکراہٹ بھی زیرِ نگرانی ...

ریاض اور اسلام آباد کا دفاعی معاہدہ

  ریاض اور اسلام آباد کا دفاعی معاہدہ: امن کی ضمانت یا نئے تصادم کی پیشگوئی خلیج کی ریت میں تاریخ نے ہمیشہ نئی لکیریں کھینچی ہیں۔ کبھی تیل کی خوشبو نے طاقت کی سمت متعین کی، کبھی قبلۂ اول نے جذبات کو بھڑکایا، اور کبھی عالمی طاقتوں کی مداخلت نے تقدیر کا نقشہ بدل ڈالا۔ ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا نیا دفاعی معاہدہ خطے میں ایک نئی بحث کا آغاز ہے۔ معاہدہ کہتا ہے:  اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوا تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔   بظاہر یہ الفاظ سادہ ہیں مگر ان کے مضمرات نہایت پیچیدہ ہیں۔ معاہدے کی بنیادی نکات کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں مشترکہ دفاع۔ انٹیلی جنس اور سیکیورٹی تعاون میں اضافہ۔ جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اشتراک۔ خطے میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی۔ یہ نکات بظاہر دفاعی ہیں لیکن ان کا دائرہ اثر بہت وسیع ہے۔ یہ صرف پاکستان اور سعودی عرب تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور عالمی طاقتوں تک پھیل جاتے ہیں۔ اسرائیل کو عرب دنیا سے کبھی براہِ راست فوجی خطرہ نہیں رہا۔ بلکہ متحدہ عرب امارات اور بحرین...

بگرام ائیر بیس کی تاریخ اور سٹرٹیجک اہمیت

تصویر
  باگرام ایئر بیس: تاریخ، اسٹریٹیجک  اہمیت اور موجودہ جغرافیائی سیاست افغانستان کی زمین ہمیشہ عالمی طاقتوں کے لیے دلچسپی اور کشمکش کا میدان رہی ہے۔ برطانوی استعمار سے لے کر سوویت یونین اور پھر امریکہ تک، ہر بڑی طاقت نے یہاں اپنی موجودگی کو ناگزیر سمجھا۔ انہی طاقتوں کی حکمتِ عملی میں باگرام ائیر بیس کا نام سب سے نمایاں رہا ہے۔  کابل سے تقریباً پچاس کلومیٹر شمال میں واقع یہ بیس افغانستان کی تاریخ میں محض ایک فوجی اڈہ نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی ترجیحات اور پالیسیوں کا عکاس بھی رہا ہے۔  18 ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران  کہا  کہ ان کی انتظامیہ طالبان سے باگرام ایئر بیس واپس لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ابھی اس کے بارے میں زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔   اب جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےباگرام بیس کو واپس لینے کی خواہش  کا اظہار کیا ہے، تو یہ سوال ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ باگرام کی اصل کہانی کیا ہے اور اس کے گرد مستقبل کی سیاست کس سمت جا سکتی ہے؟ باگرام بیس کی بنیاد 1950 کی دہائی میں رکھی گئی۔ ابتدا میں یہ اڈہ سوویت یون...

تیراہ کاسانحہ: امن کی تلاش یا لا متناہی جںگ

  تیراہ کا سانحہ: امن کی تلاش یا لامتںاہی جنگ؟ 22 ستمبر 2025 کی صبح خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں ایک ہولناک واقعہ پیش آیا جس میں 24 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ وفاقی حکومت اور سکیورٹی ذرائع اس واقعے کو شدت پسندوں کے زیرِ استعمال بارودی مواد کے پھٹنے سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ شدت پسندوں نے مقامی آبادی کی بیچ ایک مکان میں گولہ باردو ذخیرہ کیا تھا جس میں کسی وجہ سے دھماکہ ہوا۔ اور نتیجے میں نہ صرف شدت پسند بلکہ آس پاس کے مکانات بھی تباہ ہوئے۔ جس سے عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی۔ جبکہ مقامی باشندوں اور صوبائی نمائندوں کا دعویٰ ہے کہ یہ فضائی کارروائی تھی۔ اختلافِ بیانیہ جتنا بھی ہو، اس واقعے کی سب سے واضح تصویر وہی ہے جس میں عام شہری انتہائی قیمت ادا کر گئے۔ غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق 24 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اس واقعے پر علاقے کے عوام نے شدید غم و غصہ ظاہر کیا اور متاثرہ خاندانوں کے لیے معاوضے کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے معاوضے کا اعلان بھی کیا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا معاوضہ ان زخمو...