اشاعتیں

ستمبر, 2025 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سوچنے سے پہلے اجازت لیں۔

  سوچنے سے پہلے اجازت لیں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں تقریباً  40 لاکھ شہریوں کے فون اور دیگر ڈیجیٹل مواصلاتی ذرائع مانیٹر کیے جا رہے ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نگرانی کے لیے جدید آلات اور ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہیں، تاکہ ہر کال، ہر میسج، ہر سوشل میڈیا پوسٹ اور ہر آن لائن سرگرمی زیرِ نگرانی رہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ الات بیرون ملک سے کروڑوں ڈالرز کی ادائیگیاں کر کے خریدیں گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرضوں میں ڈوبے ہوئے ایک ملک کیلئے شہریوں کی جاسوسی کتنا ضروری عمل ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق، یہ عمل شہریوں کی پرائیویسی اور ذاتی آزادی پر گہرا اثر ڈال رہا ہے، اور روزمرہ زندگی کے ہر پہلو میں اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اب تصور کریں کہ آپ اپنے فون پر چیٹ کر رہے ہیں، ایپس کے درمیان سوئچ کر رہے ہیں، اور ہر بار سوچتے ہیں کہ کہیں یہ خیال یا میسج ‘غیر منظور شدہ’ تو نہیں۔ ہر نوٹیفکیشن کی بیپ، ہر ایموجی، ہر پوسٹ، ریاست کی نظر میں ہے۔ یہ سنجیدہ حقیقت طنز کے زاویے سے اتنی absurd لگتی ہے کہ شہری خود بھی کبھی مسکرا دیتے ہیں۔ لیکن یہی مسکراہٹ بھی زیرِ نگرانی ...

ریاض اور اسلام آباد کا دفاعی معاہدہ

  ریاض اور اسلام آباد کا دفاعی معاہدہ: امن کی ضمانت یا نئے تصادم کی پیشگوئی خلیج کی ریت میں تاریخ نے ہمیشہ نئی لکیریں کھینچی ہیں۔ کبھی تیل کی خوشبو نے طاقت کی سمت متعین کی، کبھی قبلۂ اول نے جذبات کو بھڑکایا، اور کبھی عالمی طاقتوں کی مداخلت نے تقدیر کا نقشہ بدل ڈالا۔ ایسے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا نیا دفاعی معاہدہ خطے میں ایک نئی بحث کا آغاز ہے۔ معاہدہ کہتا ہے:  اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوا تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔   بظاہر یہ الفاظ سادہ ہیں مگر ان کے مضمرات نہایت پیچیدہ ہیں۔ معاہدے کی بنیادی نکات کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں مشترکہ دفاع۔ انٹیلی جنس اور سیکیورٹی تعاون میں اضافہ۔ جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اشتراک۔ خطے میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی۔ یہ نکات بظاہر دفاعی ہیں لیکن ان کا دائرہ اثر بہت وسیع ہے۔ یہ صرف پاکستان اور سعودی عرب تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور عالمی طاقتوں تک پھیل جاتے ہیں۔ اسرائیل کو عرب دنیا سے کبھی براہِ راست فوجی خطرہ نہیں رہا۔ بلکہ متحدہ عرب امارات اور بحرین...

بگرام ائیر بیس کی تاریخ اور سٹرٹیجک اہمیت

  باگرام ایئر بیس: تاریخ، اسٹریٹیجک اہمیت اور موجودہ جغرافیائی سیاست افغانستان کی زمین ہمیشہ عالمی طاقتوں کے لیے دلچسپی اور کشمکش کا میدان رہی ہے۔ برطانوی استعمار سے لے کر سوویت یونین اور پھر امریکہ تک، ہر بڑی طاقت نے یہاں اپنی موجودگی کو ناگزیر سمجھا۔ انہی طاقتوں کی حکمتِ عملی میں باگرام ائیر بیس کا نام سب سے نمایاں رہا ہے۔  کابل سے تقریباً پچاس کلومیٹر شمال میں واقع یہ بیس افغانستان کی تاریخ میں محض ایک فوجی اڈہ نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کی ترجیحات اور پالیسیوں کا عکاس بھی رہا ہے۔  18 ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران  کہا  کہ ان کی انتظامیہ طالبان سے باگرام ایئر بیس واپس لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ابھی اس کے بارے میں زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔   اب جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےباگرام بیس کو واپس لینے کی خواہش  کا اظہار کیا ہے، تو یہ سوال ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ باگرام کی اصل کہانی کیا ہے اور اس کے گرد مستقبل کی سیاست کس سمت جا سکتی ہے؟ باگرام بیس کی بنیاد 1950 کی دہائی میں رکھی گئی۔ ابتدا میں یہ اڈہ سوویت یونین کی ...

تیراہ کاسانحہ: امن کی تلاش یا لا متناہی جںگ

  تیراہ کا سانحہ: امن کی تلاش یا لامتںاہی جنگ؟ 22 ستمبر 2025 کی صبح خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں ایک ہولناک واقعہ پیش آیا جس میں 24 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ وفاقی حکومت اور سکیورٹی ذرائع اس واقعے کو شدت پسندوں کے زیرِ استعمال بارودی مواد کے پھٹنے سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ شدت پسندوں نے مقامی آبادی کی بیچ ایک مکان میں گولہ باردو ذخیرہ کیا تھا جس میں کسی وجہ سے دھماکہ ہوا۔ اور نتیجے میں نہ صرف شدت پسند بلکہ آس پاس کے مکانات بھی تباہ ہوئے۔ جس سے عام شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہوئی۔ جبکہ مقامی باشندوں اور صوبائی نمائندوں کا دعویٰ ہے کہ یہ فضائی کارروائی تھی۔ اختلافِ بیانیہ جتنا بھی ہو، اس واقعے کی سب سے واضح تصویر وہی ہے جس میں عام شہری انتہائی قیمت ادا کر گئے۔ غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق 24 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اس واقعے پر علاقے کے عوام نے شدید غم و غصہ ظاہر کیا اور متاثرہ خاندانوں کے لیے معاوضے کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے معاوضے کا اعلان بھی کیا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا معاوضہ ان زخمو...